ملک کے اندر روزگار کے نئے مواقع پیدا، میرٹ کو یقینی بنایا جائے، رشوت اور سفارش کے کلچر کو ختم کرنا ہو گاجماعت اسلامی پنجاب وسطی
لاہور(خبر نگار) امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے یونا ن کشتی حادثے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر سوگوار خاندانوں سے گہرے رنج و غم، تعزیت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے کسی بھی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں، انسانی اسمگلنگ کے تمام نیٹ ورکس کو جلد ازجلد گرفتار کر کے کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق کشتی میں 310پاکستانی سوار تھے جن میں سے صرف 12کو بچایا جا سکا،135کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا۔یونان حکومت نے لاپتہ افراد کو مردہ قرار دیکر ریسکیو آپریشن بند کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یف آئی اے اور دیگر متعلقہ ادارے انسانی اسمگلنگ کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ ہر سال 15ہزار افراد پاکستان سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ انسانی اسمگلرز لاکھوں روپے لے کر انہیں حالات کے رحم و کرم پر مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔پاکستان میں گزشتہ چار برسوں کے دوران انسانی اسمگلنگ کے 80ہزار سے زائد واقعات ہوئے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔انہوں نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کی بنیادی وجہ مہنگائی، بے روزگاری، معاشی سست روی اور غیر محفوظ سرحد ہے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، جبکہ غربت کی شرح زیادہ اور انسانی معیار زندگی کے لحاظ سے بھی اس کا شمار دنیا کے پست ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس سے انسانی اسمگلرز کا کام کافی آسان ہوجاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے ملکی قانون کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان نے مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر 2018 ہی میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے دو نئے قوانین متعارف کرائے ہیں۔ جن میں سے ایک انسداد مہاجرین ایکٹ 2018، جب کہ دوسرا انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 ہے۔ان دو قوانین کے علاوہ پاسپورٹ ایکٹ 1974، ایمیگریشن آرڈیننس 1979، فارنرز ایکٹ 1946، انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2002 اور دیگر متعلقہ قوانین بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔ان قوانین کی روشنی میں ملک سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید تک کی سزائیں رکھی گئی ہیں، جبکہ انسانی اسمگلنگ پر نظر رکھنے اور اس جرم کی سرکوبی کے لیے ’اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔مگر المیہ یہ ہے کہ ن اقدامات کے باوجود اس گھناونے دھندے کی مکمل سرکوبی ممکن نہیں ہوسکی۔محمد جاوید قصوری نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق، انسانی اسمگلنگ کے جرم میں مطلوب افراد کی ’ریڈ بک‘ میں شامل 80 سے زائد اسمگلرز کا تعلق پنجاب، 50 کا اسلام آباد، سندھ سے 30 اور بیرون ملک ملزمان کی تعداد 40 ہے۔ صرف یہ ہی نہیں ایف آئی اے نے گزشتہ چار سالوں کے دوران 30 انتہائی مطلوب افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملک کے اندر روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے۔ نوجوانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہئے۔مہنگائی کا گراف نچلی سطح پر لایا جائے۔ اور تمام اداروں میں میرٹ کو یقینی بنایا جائے۔ رشوت اور سفارش کے کلچر کو ختم کرنا ہو گا۔