
اپنے ضمیر اور درست مؤقف کے باوجود بروقت اعتراضات کے ساتھ ترجیحی بل واپس نہ کیا گی
لاہور (خبرنگار)نائب امیر جماعت اسلامی، قائمہ کمیٹی سیاسی انتخابی قومی امور کے صدر لیاقت بلوچ نے کہا کہ ایوانِ صدر کی جانب سے آرمی ایکٹ پر کمزور اوربزدلی کی روِش اختیار کی گئی۔ اپنے ضمیر اور درست مؤقف کے باوجود بروقت اعتراضات کے ساتھ ترجیحی بل واپس نہ کیا گیا اور اب چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کے لیے خط بھی آئین و قانون کی بنیاد پر بہت کمزور عمل ہے، جس سے غیرجمہوری روایات کو مزید فروغ اور انتخابات سے فرار کے لیے سہولت کاری ہوگئی ہے۔ حقیقتِ حال یہی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدتِ انتخاب مکمل ہوگئی ہے اِس لیے90دِن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا آرٹیکل بالادست ہے۔ الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ نہیں آئین کے لازم حکم کو تسلیم کرے۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ مردم شماری بہانہ ہے، انتخابات سے فرار نشانہ ہے۔ مردم شماری کا نوٹیفکیشن اتحادی حکومت نے ایسے مرحلہ پر کیا کہ جب خود حکومت کی مدت ختم ہورہی تھی اور اتحادی حکومت کے فیصلہ کے مطابق90 دِن کی مدت میں انتخاب کے لیے اسمبلیوں کو قبل از وقت تحلیل کردیا گیا، جبکہ اعلان کیا گیا کہ مردم شماری پر اتفاقِ رائے ہے، جوکہ صریحاً جھوٹ ثابت ہوا۔ سینیٹ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی تمام جماعتوں نے بوگس مردم شماری کے خلاف بائیکاٹ کیا اور کراچی و اندرونِ سندھ سے بھی مردم شماری پر اعتراضات حقائق کی بنیاد پر کئے جارہے ہیں۔ جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا نے بھی ڈیجیٹل مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ متنازع مردم شماری پر حلقہ بندیاں متنازع انتخابات کی بنیاد بن جائیں گی۔ 2013ء اور 2018ء کے انتخابات دھاندلی زدہ، متنازع رہے جس سے قومی سیاست، وحدت، پارلیمانی نظام اور اقتصادی ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا۔ اب 2023ء انتخابات کو بھی متنازع نہ بنایا جائے، عوام کا اعتماد بحال کیا جائے اور 2023ء کو صاف، شفاف اور بروقت انتخابات کا سال بنایا جائے۔ جماعتِ اسلامی 90دِن میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کررہی ہے۔