پاکستانتعلیمسٹی

جنوبی ایشیا کے ممالک کے مقابلہ میں پاکستان کا تعلیمی بجٹ کا انتہائی کم ہے۔ڈاکٹر شاہد منیر

اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق پاکستان کو اپنی قومی پیداوار کا چار سے چھ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے. پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر ارفع کریم ٹاور میں تعلیم کے عالمی دن کے موقع پر تقریب کا انعقاد
لاہور ( خبرنگار) پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر ارفع کریم ٹاور میں تعلیم کے عالمی دن کے موقع پر تقریب کا انعقاد کیا گیاجس کی صدارت چیئرمین پنجاب ایچ ای سی ڈاکٹر شاہد منیر نے کی. تقریب کا مقصدتعلیم کے عالمی دن کی مناسبت سے پی ایچ ای سی کی علمی ترقی و پیشرفت کو متعارف کرانا تھا ۔ تقریب کے شرکا نے یونیورسٹییز کی علمی و تحقیقی میدان میں حاصل کی گئی کامیابیوں کے ذکر کے علاوہ جدید چیلنجز پر گفتگو کی گئی اور تجاویز دی گئیں ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تعلیم صوبوں کے سپرد کی گئی لیکن اس کے عملی نفاذ کے لئے جن اقدامات کی ضرورت تھی وہ نہیں کیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کا نمبر ڈویلپمنٹ انڈیکس میں بہت نیچے آ گیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی بجٹ کا مقابلہ کیا جائے تو یہ انتہائی کم ہے۔ اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں کے مطابق پاکستان کو اپنی قومی پیداوار کا چار سے چھ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ طاقت کا جدید تصور روایتی اسلحہ نہیں بلکہ وہ تعلیمی مہارتیں ہیں جو کسی قوم کے افراد میں پائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر شاہد منیر کا مزید کہنا تھا کہ ترقی کے لیے تعلیم کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ بے روزگاری، عدم مساوات میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ترقیاتی ہدف کو حاصل کیا جاسکے۔ معیار تعلیم میں برابری اور طویل مدتی مواقع کے بغیر کوئی بھی ملک صنفی برابری کے ہدف کو کبھی حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی ملک میں غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ہمارے ہاں طویل عرصے سے تعلیمی شعبے میں محض واجبی سرمایہ کاری نے ملک میں ایک شدید تعلیمی بحران پیدا کر دیا ہے۔ ہمیں عہد جدید میں وقار سے زندہ رہنا ہے تو تعلیم کو مرکزی حیثیت دینا ہو گی۔ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم اور ترقی کا باہمی رشتہ بے حد اہم ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو ہمیں تعلیم کی مد میں بجٹ میں خاطر خواہ اضافے اور توجہ کی ضرورت ہے۔ یکجہتی اور ترقی کے لیے ہمیں تمام انفرادی مفادات کو قوم اور ملکی مفادات کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں علاقائی، ذاتی اور نسلی تعصبات اور نفرتوں کو خیر باد کہنے کی ضرورت ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم تعلیم یافتہ ہوں گے، اپنے حقوق سے واقف ہوں گے، ہمارے وسائل ہم پر خرچ ہوں گے اور کوئی ہمارا استحصال نہیں کر سکے گا۔ تعلیمی اداروں کے نصاب میں اکیسویں صدی میں کام آنے والی مہارتوں مثلاً کریٹیکل تھنکنگ ’کمیونیکیشن‘ Creativity اور Collaboration شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔تقریب میں ڈاکٹر نظام الدین، ڈاکٹر زکریا ذاکر ،ڈاکٹر حبیب الرحمن بخاری ڈاکٹر عظمی قریشی ،ڈاکٹر شازیہ قریشی ،ڈاکٹر رخسانہ کوثر، ڈاکٹر علی ساجد، سلمان عابد ، فرزانہ شاہد ،ڈاکٹر آمنہ معظم، شگفتہ راٹھور،ڈاکٹر منصور بلوچ ، ڈاکٹر تنویرقاسم، ڈاکٹر آصف ،ڈاکٹرممتاز ،ڈاکٹر وحید اور ڈاکٹر تہمینہ انجم اورڈاکٹر بشری عنایت راجہ  نے بھی شرکت کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button