اسلام آباد: چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات میں تاخیر پر حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیا اور کہا ہے آئین کے مطابق الیکشن اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں کیے جانے ہیں، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پنجاب اور خیبرپختون میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس کی سماعت نو رکنی لارجر بینچ نے کی۔
بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔
بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم صدر پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دو درخواستیں ہیں وہ اب آؤٹ ڈیٹ ہوچکی ہیں اس پر وضاحت کی ضرورت ہے، 20 فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی، کچھ سوال دونو ں اسمبلی کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عمل درآمد کرانا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کی اور کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کے لیے تیاری مشکل ہوپائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے، آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے، وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر کی درخواستیں ہیں، ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ طویل سماعت نہیں کرسکتے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر شعیب شاہین نے کہا کہ ازخود نوٹس میں اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آتا ہے تو سب کو فائدہ ہوگا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کریں گی جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ یہ ٹائم باؤنڈ کیس ہے اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے۔
جسٹس جمال جان مندوخیل نے کہا کہ کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم اس کیس میں آئینی شک پر بات کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184(3) میں دیکھنا چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا اس پر وکیل علی ظفر بولے کہ ہماری درخواست زیر التوا ہے اسے بھی ساتھ سنا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے 3 معاملات ہیں، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے ہائیکورٹ کا 10 فروری کا آرڈر تھا، ہمارے سامنے بہت سے فیکٹرز تھے جن کی بنیاد پر از خود نوٹس لیا، ہائیکورٹ میں طویل کارروائی چل رہی ہے اور وقت گزرتا جار ہا ہے۔ اس پر جسٹس جمال نے کہا کہ از خود نوٹس پر تحفظات ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ از خود نوٹس بعد میں لیا پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بنچ میں تھے جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا اس پر چیف جسٹس بولے کہ بہت سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ازخود نوٹس لیا گیا، آئین انتخابات کا وقت بتاتا ہے جو ختم ہورہا ہے، ہائی کورٹ کا فورم بائی پاس کیا جا سکتا ہے اگر ایمرجنسی ہو، سپریم کورٹ کے لیے آسان تھا کہ دو دائر درخواستیں مقرر کر دیتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 57 انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ہے، بہت سے نئے نکات آگئے ہیں جن کی تشریح ضروری ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے، ہمیں آئین کو دیکھنا ہے اس پر عمل درآمد ہورہا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے دو درخواستیں تھیں اور سمپل تھا کہ وہ سنتے، ہم آٸین پر عمل درآمد چاہتے ہیں ، سپریم کورٹ آٸین کی خلاف وزری کسی صورت برداشت نہیں کرے گا، دو درخواستیں ہیں وہ اب آوٹ ڈیٹ ہوگئی ہیں اور اس پر وضاحت کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹ نے کہا کہ 20 فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی، کچھ سوال دونو ں اسمبلی کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، انتحابات کا ایشو وضاحت طلب ہے ہم ارادہ رکھتے ہیں آپ سب کو سنیں، ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا ہے تاکہ یہ کیس چلا سکیں۔
جسٹس جمال کا ازخود نوٹس پر تحفظات کا اظہار
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا ہے جو کہ فریق نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کی اور کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کیلئے تیاری مشکل ہوجائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے، آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سامنے آئینی سوالات ہیں، ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس کیا جائے، سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس کیا جائے، پاکستان بار کونسل کو بھی نوٹس کیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل تمام فریقین کو ایشوز بتائیں گے اور تیاری کی مہلت دیں گے۔ وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ہائیکورٹ کا ریکارڈ منگوایا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوالات اٹھائے کہ اسمبلی توڑنے اختیار کے استعمال کا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ کیا وزیر اعلی سیاسی رہنما کی ہدایت پر اسمبلی توڑ سکتے ہیں؟ عوام نے نمائندوں کو پانچ سال کا مینڈیٹ دیا تھا، دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعلی نے اسمبلی توڑنے کے اختیار کا استعمال درست کیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ممکن ہے عدالت ریکارڈ کا جائزہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اسمبلی غلط توڑی گئی، ممکن ہے اسمبلی توڑنے کے اختیار کے غلط استعمال کے نتیجے پر پہنچنے سے اسمبلی بحال ہوجائے، اسمبلی کی بحالی کے فیصلے سے ممکن ہے یہ کرائسز ختم ہوجائے۔
سماعت کے اختتام پر عدالت نے کہا کہ ہمارے سامنے دو درخواستیں دائر ہوتی ہیں جن میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی ناکامی کا کہا گیا، اسپیکرز کی درخواست دائر ہونے سے پہلے ہی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان خط و کتابت ہوئی، بائیس فروری کو صدر مملکت نے انتحابات کی تاریخ دے دی۔ صدر مملکت نے نو اپریل کو انتحابات کی تاریخ دی۔
عدالت نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو گورنر کی مشاورت سے تاریخ دینے کا کہا، ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن اور گورنر نے اپیلیں دائر کیں، پشاور ہائیکورٹ میں بھی یہی مقدمہ 28 فروری کو سنا جائے گا، اسمبلیاں تحلیل ہونے کے چھ ہفتے بعد بھی انتخابات کی تاریخ کا معاملہ عدالتوں میں زیر التواء ہے جب کہ آئین نوے دنوں میں الیکشن کا کہتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ بائیس فروری کو بینچ کی درخواست پر ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا، ازخود نوٹس میں تین سوالات کا تعین کیا جائے گا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان ایڈووکیٹ جنرلز کو 27-A کے نوٹسز جاری کردیے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔ جسٹس اطہر نے کہا کہ کیا ہائی کورٹ بار کی درخواست کے لیے منظوری ہے؟ جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ دس ایک سے قرارداد منظور کی ہے، الیکشن کا حکم کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہوگا، یہ درخواست کسی کے خلاف نہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فریقین کو آنے دیں اور بتانے دیں کہ الیکشن چاہتے ہیں یا نہیں۔ جسٹس منیب نے کہا کہ یہاں ایشو ہے کہ اسمبلی کی تحلیل اور عام انتخابات کیسے ہوں گے؟ اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیا گیا تھا، موجودہ کیس اسپیکر رولنگ سے مختلف ہے۔
عدالت نے کہا کہ آئین کے مطابق الیکشن اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں کیے جانے ہیں، خود نوٹس میں کچھ سوالات الیکشن کمیشن ایکٹ 27 اور 28 سے متعلق اٹھائے گئے،جسٹس اطہر من اللہ کے سوال کو ان سوالات میں شامل کیا جائے گا۔