پاکستانتازہ ترینسیاست

توشہ خانہ کیس :عمران خان کے وارنٹ گرفتاری برقرار، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست نمٹا دی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ میں عمران خان اس حوالے سے درخواست دائر کر سکتے ہیں اور عمران خان ہائی کورٹ میں دی گئی انڈر ٹیکنگ ٹرائل کورٹ میں دیں گے۔ ہائیکورٹ میں دی انڈر ٹیکنگ عمران خان ٹرائل کورٹ میں دائر درخواست کے ساتھ لگائیں گے۔
آغاز میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست اعتراضات کے ساتھ سماعت کیلیے مقرر کی تھی جس کے بعد رجسٹرار آفس نے کاز لسٹ جاری کی، چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست پر سماعت کی۔ بائیو میٹرک اور دستخط کے اعتراضات عدالت نے دور کیے جبکہ عدالت نے عمران خان کے وکیل کو باقی اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کی تھی۔
عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست پر تمام اعتراضات دور کیے گئے۔ سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں صرف پانچ منٹ لوں گا، اس عدالت نے 7 مارچ کو وارنٹ معطلی کا حکم دیا تھا۔ عمران خان کے وکیل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا 7 مارچ کا آرڈر بھی پڑھا۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ 13 مارچ کو پٹیشنر عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ وہ اس روز کدھر تھے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ عمران خان اس روز گھر پر تھے جبکہ شام کو ریلی میں تھے اور میں نے 13 مارچ کو عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی تھی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ایک دفعہ وارنٹ جاری ہو جائیں تو وہ فیلڈ میں ہوتے ہیں اور اس عدالت نے صرف وارنٹ معطل کیے تھے لیکن وارنٹ فیلڈ میں تھا اور ہے۔

عمران خان کے وکیل نے کہاکہ اگر اثاثوں کی تفصیلات غلط طریقے سے دی گئیں ہوں تو قانون کے مطابق 120 روز میں کمپلیننٹ فائل ہو سکتی ہے لیکن الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ کچھ وقت دیں میں اس کا جواب دوں گا، وارنٹ جاری کرتے ہوئے جو طریقہ استعمال کیا گیا اس میں قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے کہا تھا میری درخواست پر فیصلہ ہونے پر وارنٹ پر عمل درآمد روک دیں، جو کمپلیننٹ الیکشن کمیشن نے فائل کی تھی اس میں مجاز اتھارٹی کا لیٹر ہی نہیں تھا اور قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کمپلیننٹ فائل کر سکتا ہے لیکن ایسا کوئی لیٹر ریکارڈ پر نہیں تھا کہ مجاز اتھارٹی نے اجازت دی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کی قابل سماعت ہونے کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہوا؟ وکیل نے بتایا کہ میری درخواست پر فیصلہ نہیں کیا گیا اور میری استثنیٰ کی درخواست پر اس طرح دلائل بھی نہیں دیے تھے تو اس کا فیصلہ کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حاضری کا آرڈر تھا اس لیے حاضری تو حاضری ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرے لیے جو لاہور میں ہو رہا ہے وہ بھی ضروری ہے اور میرے لیے وقار اپنی کورٹ کا بھی عزیز ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جہاں یہ تاثر جائے کہ ایک کے لیے اور دوسرے کے لیے اور طریقہ کار ہے۔ جو کچھ لاہور میں ہو رہا ہے ہم دنیا کو دیکھا رہے ہیں کہ قانون پر عمل نہیں کرتے، ہم تو قبائلی علاقوں کا سنتے تھے وہاں یہ ہوتا ہے اب یہ لاہور میں دیکھ رہے ہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ کیا دوبارہ وارنٹ جاری ہو سکتے ہیں، میں نے تو تاریخ نہیں مانگی وہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے مانگی تھی، ہم نے فیصلے کی کاپی لی تو اس میں دلائل کا کوئی ذکر نہیں تھا اور یہ کرمنل کیس ہے، وارنٹ کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ حاضری یقینی بنائی جا سکی لیکن جو کچھ لاہور میں ہو رہا ہے وہ بہت افسوس ناک ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ میں نے عمران خان سے بات کی ہے اور وہ شورٹی دے رہے ہیں کہ وہ 18 مارچ کو پیش ہوں گے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ آپ کو شورٹی دی ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ جی مجھے عمران خان نے شورٹی دی ہے، جس کے بعد عمران خان کی جانب سے دی گئی شورٹی کی کاپی عدالت کے سامنے پیش کی گئی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل آفس کا ایڈوکیٹ جنرل آفس سے کوئی ہے؟ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔ عمران خان کے شورٹی کی دستاویز کی کاپی ایڈوکیٹ جنرل کو دیکھائی گئی، جس پر ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہاکہ پہلی دفعہ ہوا ہے پرسنل شورٹی دے رہے ہیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button