لاہور(خبر نگار)پانی کے عالمی دن کے موقع پر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں تقریب ہوئی جس میں آبی ماہرین سمیت ذرائع آب سے تعلق رکھنہ والے اداروں، اکیڈمیہ اور بڑی تعداد میں سول سوسائٹی کے افراد نے شرکت کی۔ تقریب میں آبی وسائل کی فراہمی اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام امور زیر بحث آئے۔ لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر بدترین اثرات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آبی مسائل کے حل کے لیے منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اب بھی بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو چند سال بعد پاکستان میں قحط کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ تقریب سے سابق صدور عبدالباسط، انجینئر سہیل لاشاری، سندھ طاس واٹر کونسل کے چیئرمین سلیمان خان، انجینئرایم ایچ صدیقی، انجینئر نجم وحید صدر پاکستان انجینئرنگ کانگریس، ڈاکٹر زاہد صدیقی، ڈاکٹر شاہد علی، ڈاکٹر وسیم، مہدی عطا غزالی، ایئر وائس مارشل (ر) انور محمود خان، زاہد جاوید راجہ، افضل گورایا، افتخار رندھاوا، کیپٹن قدیر، کرنل (ر) اشفاق حسین، شاہد کریم مزاری، فیصل ارشد، رانا امیر محمد خان، رانا شاہد، انجینئر مشتاق، پروفیسر صدیقی اور ڈاکٹر جاوید سمیت بڑی تعداد میں سول سوسائٹی کے افراد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انجینئر شمس الملک اور پیر ڈاکٹر مہدی رضا شاہ سجادہ نشیں لعل شہباز قلندر نے ٹیلیفونک خطاب کیا۔ مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آبی وسائل کی کوئی کمی نہیں لیکن صوبوں کے درمیان نااتفاقی کی وجہ سے 30ملین ایکڑ فٹ پانی سالانہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اگر اس پانی کو استعمال میں لایا جائے تو قومی معیشت میں سالانہ 60ارب ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے جس سے صرف دو تین سال میں ہم اپنا سارا قرض اتار سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ آبی وسائل سمیت قومی ترقی کے پراجیکٹ کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔ اس سلسلہ میں چاروں صوبوں کے ماہرین کے تعاون سے راہ عمل کا تعین کیا جائے۔ سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے علاوہ بارشی پانی کو محفوظ بنانے کے طریقوں پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے بنجر زمینیں بھی آبادی کی جاسکتی ہیں۔ زراعت کے جدید طریقے استعمال کرکے ملک کو غذائی قلت سے نجات دلانے کے علاوہ قوم کو سستی آبی بجلی کا حصول بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔