ہتھیلیوں، پیروں کے تلوؤں میں سوزش، بخار اور کمر درد کی صورت میں قریبی سرکاری ہسپتال رابطہ کیا جائے، ڈاکٹر محمد شہباز، منیر غوری
لاہور (خبر نگار)
جنرل کیڈر ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر مسعود اختر شیخ نے مونکی پوکس کے حوالے سے سٹی ہسپتال لاہور میں پبلک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مونکی پوکس میں 90 سے 99 فیصد افراد ازخود ٹھیک ہو جاتے ہیں، بخار یا درد کشا ادویات کا استعمال ہی کافی ہے،عوام بے جا خوف نہ کھائیں۔ مونکی پوکس کے استعمال شدہ کپڑوں، تولیہ یا الیکٹرانک کے آلات یا دیگر سامان جس پر وائرس لگا ہو اس کو استعمال نہ کیا جائے۔ یہ مرض بنیادی طور پر جانوروں میں پایا جاتا ہے جو کبھی کبھی انسانوں میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ بعض حالات میں یہ وائرس انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس مرض کا حملہ زیادہ تر بچوں، حاملہ خواتین اور ایسے افراد پر ہوتا ہے جن کا دفاعی نظام کمزور ہو۔ مریض کو شروع میں بخار، سر درد، کمر درد، پٹھوں میں درد رہتا ہے جس کے بعد جسم کے Lymph Nodes میں سوجن ہو جاتی ہے۔ چہرے، ہتھیلیوں، پیر کے تلوؤں یا مخصوص اعضاء پر دھپڑ پڑ سکتے ہیں جو دو سے تین ہفتے تک رہتے ہیں۔ دھپڑ آہستہ آہستہ پانی نما چھالے بن جاتے ہیں جوبعد میں سوکھ کے جھڑ جاتے ہیں۔ ایسے تمام افراد جنہیں اس قسم کی علامات ہوں یا مونکی پوکس کے مریض سے رابطے میں رہے ہوں یا بیرون ملک سفر سے آئے ہوں وہ سرکاری ہسپتالوں سے رابطہ کریں۔ ڈاکٹر محمد شہباز نے کہا کہ جب تک پانی نما چھالے گر کر خشک نہ ہو جائیں تب تک یہ مرض ایک سے دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے۔ نومولود بچوں، چھوٹی عمر کے بچوں اور جن کا دفاعی طور پر کمزور افراد میں علامات بگڑ سکتی ہیں۔ ڈاکٹر منیر غوری نے کہا کہاگر احتیاط نہ برتی جائے تو نمونیا اور آنکھوں کے مسائل دیکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اسد عباس شاہ نے کہا کہ یہ بیماری ایک سے دوسرے شخص کو قریبی تعلق کی وجہ سے پھیل سکتی ہے۔ سانس لینے، بات کرنے کے دوران منہ سے نکلنے والے چھوٹے چھوٹے ذرات مرض کو ایک سے دوسرے تک منتقل کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر غلام فرید نے کہا کہ پانی والے چھالوں یا کسی ایسے حصے کو چھوناجہاں یہ چھالے موجود ہوں مرض کو منتقل کرنے کا سبب بن سکتاہے۔ جب تک چھالوں میں پانی رہے یا نئی جلد نہ آ جائے یا آنکھوں یا جسم کے کسی حصے میں سوزش اور چھالے ہوں تو مرض ایک سے دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے۔