چائلڈ لیبر معصوم بچوں کا استحصال
تحریر بسم اللہ ارم
ہر سال بارہ جون کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے عالمی دن کی بنیاد انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی جانب سے 2002 میں رکھی گئی اس دن کو منانے کا مقصد بچوں سے مزدوری لینے کے رجحان کا خاتمہ کرکے انہیں مشقت کی اذیتوں سے نجات دلاکر سکول کا راستہ دکھانا اور معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لئے شعور اجاگر کرنا ہے کیونکہ آئین پاکستان کےا آرٹیکل 11 کے تحت چودہ سال سے کم عمر بچے کو کسی کارخانے کان یا دیگر پرخطر مقام بر ملازمت پر نہیں رکھا جا سکتا آرٹیکل 37 کے تحت ریاست منصفانہ اور نرم شرائط کا ر کی ضمانت دیتے ہوئے بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر جنس کے لیے نامناسب ہے آرٹیکل 27 28 میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کی بات کی گئی ہے اور اٹھارہویں ترامیم کے بعد یہ اختیار صوبوں کو دے دیا گیا ہے اور آئین کے آرٹیکل 25 اے کہ تحت ریاست تمام پانچ سال کی عمر سے لے کر سولہ سال کی عمر کے بچوں کے لئے مفت تعلیم دینے کا انتظام کرے گی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بچے کسی بھی ملک کو قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اگر بچے تعلیم کی بجائے محنت مزدوری پر مجبور ہوجائیں تو کسی بھی ملک کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمیں ادارک ہوتا ہے مزدور بچے ورکشاپوں گھروں مارکیٹوں د کانوں ہوٹلوں بھٹوں پر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں وجود سے بڑے ٹائر کو کبھی پنچر لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں قالین چوڑیاں سرجیکل آلات چمڑا رنگنے والی فیکٹریوں میں عام طور پر بچے ہی کام کرتے نظر آتے ہیں بھٹوں پر والدین کا قرض اتارنے کے لیے دھوپ چھاؤں کی پرواہ کیے بغیر یہ بچے مشقت سے کام کرتے نظر آتے ہیں تو وڈیروں کے ڈیروں پر دانے اور خوراک کے لیے پناہ لینے کے لیے بچے ان کے ملازم ہوکر رہ جاتے ہیں جب یہ بچے عموماً پانچ سال کی عمر میں پہنچتے ہیں تو والدین بے روزگاری کی وجہ سے جب بڑوں کو روزگار نہیں ملتا تو بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں کیوں کہ بچوں کو آسانی سے کام مل جاتا ہے یہ بچے امیرزادوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں جہاں پر ان کے بچوں کے کھلونے مہنگے لباس دیکھ کر ان کا دل للچاتا ہے مگر وہ یہ کھلونے خود استعمال نہیں کر سکتے بلکہ ان بچوں کے کھلونے سنبھالنے کی ذمہ داری ان بچوں کو دی جاتی ہے اور ان بچوں پر گھروں میں تشدد ہونے کی صورت میں والدین بہت کم دورانیہ کے دوران صلح کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہیونکہ انہیں حکومت کی طرف سے ریلیف ملتا نظر نہیں آتا چوبیس گھنٹے کام اور تنخواہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہوتی ہے ان میں 73 فیصد لڑکے اور 27 فیصد لڑکیاں چائلڈ لیبر کا شکار ہیں والدین بھی یہ سوچ لیتے ہیں کہ بچہ خود کمائے اور خود کھائے اس کے لیے انہیں گھر بیٹھا کر کھلانا مشکل ہو جاتا ہے بچپن کا زمانہ خواہشات امیدیں اور خواب میں انسان کو بڑھاپے تک یاد رہتا ہے کسی کا بچپن خوش گوار گزرتا ہے تو کسی کا انتہائی کرب مصائب اور حسرت میں زندگی ایسی ہی آزمائش امتحان اور خوشبو کا نام ہزندگی میں بچپن ہی ایسا دور ہوتا ہے جب انسان کو کسی قسم کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی کھاو پیو موج اڑاؤ مگر کبھی کبھار ان مزدور بچوں کو بچپن نصیب ہی نہیں ہوتا اور پاکستان میں تو لاکھوں بچوں کے ساتھ ایسا ہی ہو رہا ہے پاکستان میں چائلڈ لیبر میں کمی کی بجائے روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ویے تو دنیا بھر میں ستاسٹھ ممالک میں چائلڈ لیبر کا ایشو موجود ہے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تحت چائلڈ لیبر میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے تاہم پاکستان انیس سو چھیانوے کے بعد باقاعدہ کوئی سروے نہیں جس وجہ سے چائلڈ لیبر کے درست اعداد و شمار معلوم نہیں آرگنائزیشن کے سروے کے مطابق تقریبا ایک کروڑ 50 لاکھ بچے کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شامل ہیں یاد نہیں کہ تعلیم حاصل کرنے اور کھیلنے کودنے کی عمر میں محنت و مشقت کرنے والے بچے کو چائلڈ لیبر کہتے ہیں غربت بھوک مفلسی مجبوریوں کے سبب والدین اپنے بچوں کو بچپن میں ہی محنت مزدوری والے کاموں میں ڈال دیتے ہیں جہاں پر مالکان کا ان کے ساتھ ناروا سلوک اور اکثر اوقات یہ بچے اس قدر تشدد کا شکار ہوتے ہیں یہ بچے جسمانی تششدد کاشکار ہو بچوں کو غلط ناموں کے ساتھ پکارا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ مفید شہری بننے کی بجائے غیر محفوظ ہاتھوں میں رہ کر صحت تعلیم اور ذہنی استحصال کا شکار ہوتے ہیں ملک میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین تو موجود ہیں لیکن یا تو یہ ناکافی ہیں یا غیر مؤثر ہیں ان پر عملدرآمد ہی نہیں کیا جاتا بچوں سے مشقت کروانے پر بیس ہزار روپے جرمانہ یا قید کی سزا جس کی مدت ایک سال یہ دونوں بھی سزائیں دی جا سکتی ہیں اگر آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں آپ کو اپنے ہزاروں بچے کام کرتے نظر آئیں گے کیا کسی شخص کو یہ سزا یا جرمانہ ہوا معاشی مجبوریاں اپنی جگہ مگر والدین سمیت کسی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ بچے کی زندگی کو چند روپوں کے عوض خراب کریں چائلڈ لیبر امتیازی سلوک ہے جو بچوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے خاص طور پر گھریلو ملازم بچوں کی جنسی نفسیاتی معاشی معاشرتی استحصال ہو رہا ہے معاشی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے بچوں کے لئے ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں وہ تعلیم کے ساتھ کوئی ہنر سیکھ سکیں اور اپنے خاندان کی کفالت بھی کر سکیں اور معاشرے کے ایک باشعور فرد کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں