عارضی تعینات رییس جامعات کی بے پرواییاں اسلامیہ یونیورسٹی کے بعد اب اوکاڑہ یونیورسٹی
از۔ ڈاکٹر فرزانہ علی
میں نے اپنی سابقہ تحریر میں اس بات کا خدشہ اس یقین سے ظاہر کیا تھا کہ جو کام حکومتی سربراہی میں چلنے والی جامعات میں شروع ہو چکے ہیں وہ کم یا ختم نہیں بلکے ان میں ا ضا فہ ہی ہو گا۔ اعلی منصب پر فائز حکومتی اداروں میں فیصلہ سازی اور قانون سازی کرنے والے جب خود ان برائوں میں ملوث پائے جانے پر اثرو رسوخ، دونھس دھمکی سے تمام برایوں پر پردہ ڈال دیں تو سمجھو گناہگار کو شے مل گیئ ھے کہ ” اتھے کج نی ہونا تے کوئی کجھ نیی کر سک دا”
اوکاڑہ یونیورسٹی کی وایئرل وڈیو اس لہر کی ایک زندہ مثال ہے جسمیں سر عام زنہ کاری طلبا کی بے راہ راوی اور بے خوفئ دلوں کو دہلا دیتی ہے۔ اس وڈیو کے حقائق کو انے والے دنوں میں واضع کروں گی۔مگر پہلے ادارے کی جانب سے کی جانے والی کار گزاری سنیے کہ جسنے وڈ یو ریکارڈ کی قانونی کاروای بھی اسی کا مقدرٹھری۔ اس واقع کی تفصیل پھر کبھی کیونہکہ فلفور کسی بھی بات کی تشہر نوجوان طلباٰ کے لیے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔
بلا شعبہ اس تمام تر واقعات کا ذمہ دار رئیس جامہ کو تو نہں ٹہرایا جا سکتا کوینکہ انکی تمام تر ذمہ داریوں مہں یہ تو شامل ہی نہں کہ عمارت کی بوسیدہ حال چھتوں، گھنے درختوں کی اوٹ، کنٹین سے منسلک خالی جگہ یا پھر گمنام زیر تعمیر عمارتوں میں جا کر دیکھیں کہ سفاکی، درندگی اور حیا سوزی کس عروج کو جا پہنچی ہے۔ اور ویسےبھی وہ اس لیے بھی جواب دہ نہیں کہ وہ عارصی طور پر مقتدر حلقوں کی اشیرباد سے اس عہدے پر براجمان ہیں نا کہ اہلیت کہ معیار پر پرکھے جانے کہ بعد وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔ گلہ ان سب سے نہیں بلکے موجودہ ھکومتی اداروں میں براجمان معزز صحبان سے ہے کہ کیوں ابتک سرکاری جامعات میں مستقل وی سی مقرر نہیں ہو سکے اور کیوں موجودہ رئیس جامعہ اپنی سر مستیوں میں مشغول ہر غیر معمولی واقح سے یہ سوچ کہ نظر چوراتے ہیں کہ یہ کام نیے مستقل سر براہ کی ہی زمہ واری ہے نا کہ انکی۔ مقتدر احباب بلخصوص گورنر صاحب سے کہ بطور چانسلر ان تمام رئیس جامعات کا اڈٹ کاروایئں کہ اپنے غیر معینہ ادوار میں وہ کیا کیا کرتے رہے اور موجودہ زبوں حالی کا کون زمہ دار ہے۔ اگر ایسا نا کیا گیا تو شا ید بہت ساری ایسی سرگرمیاں جو کہ اس فرسودگی کہ اصل وجہ ہیں سامنے انے سے رہ جاینں گی اور یہ تمام لوگ کپرے چھاڑ کر چلتے بنے گیں اور کسی بٹرے نجی ادارے میں کسی عہدے پر پائے جا یں گے۔ کم و بیش بیس جامعات کے لیے بہت نمایاں کار کردگی ک حامل لوگوں نہے اپنے کاغذات جمع کرواے ہیں جنکی شہرت تعلیمی اور انتطامی حوالے سے بہت زیادہ مستند سمجھی جاتی ہیں۔ اگر تمام قانونی اور انطباطی طریقہ کو اپناتےہوے یہ کاروایی عمل میں لایی گی تو ان جامعات کی ترقی لازم ورنہ تو اسلامیہ اور اوکاڑہ یونیورسٹی کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ اوکاڑہ یونیورسٹی میں جز وقتی طور لگاے جانےوالےڈا کٹرساجد رشید جو کہ موجودہ ڈین اور ڈایرٹر کا لج ارتھ انیڈ انوائرلمنٹ سائینسز ہیں کی گراںقدر خدمات کا ہر کوی معترف ہے۔ بیرونی ملک سے اعلی تعلیم اور بہت پر کشش مراعات ملنے کے باوجود وہ اپنےملک کو ہی اہمیت دیتے ہیں جامعہ پنجاب کی صورتحال سے خوب واقف اور موجودہ محدود وسا ٰیل کو بروے کار لانے کہ مکمل طور سے اھل بھی ہیں۔ اسی پیراے میں اگر انتخاب کی بات کی جایے تو پروفیسر ڈاکٹر ندیم بھی تحقیق کی دنیا میں اپنے کلیدی کردار کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ کم وقت میں محنت کر کے اپنا نام منوانے والے یہ استاد بھی اگر کسی ایسی جامہ جو کہ نوملود اور ابتک گمنام ہےتعینات کر دئے جایں تو یقنی طور پر یہ جامعات اپنے وسا یل کے اندر رہتے ہوئے اپنہ رستہ ہموار کر لاین گی۔ لیکین اگر اقرباء پروری ہے نے اپنے کالے پر پھلاۓ رکھنے ہیںتو پھر موجودہ تیز تر دور میں کیمرےکی انکھ سے کچھ اوجھل نہں رہ سکتا اور اسی طرح ک واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ اور ایک اہھم نقطہ بھی قابل غور ہے کہ وہ عمر رسیدہ پروفیسر حضرات جو نیے دور کی جحتوں سے تو واقف نہں مگر جی حضوری جیسی لعنت سے خوب اشنا ہیں اور اب بھی کسی بھی جامعہ میں تعیناتی کے لیے پر تولے بیٹھے ہیں انکی پہچ سے یہ جامعات دور ہی بھلے کیونکہ ان خود پرستوں کے اتے ہی اپنے ورثا کو نوازنے کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے اسکے بعد ہی ان جامعات کو تعلیمی اور مالیاتی زبوہ حالی میسر اتی ہے اور یہ لوگ وقت مقرر پر خاموشی سے جاتے نظر اتے ہیں۔