کالم

لاہور کی سیاسی اہمیت مسلمہ مگر رونق کہاں گئی ؟

تحریر انور خان لودھی

لاہور پاکستان کا دل ہے اور ملکی سیاست کا تھرما میٹر۔ یہاں سے سیاسی ٹرینڈ بنائے جاتے ہیں اور پورے ملک میں سیاسی پنڈت لاہور کے نتائج پر نظر رکھتے ہیں اور اسے تمثیل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سندھ کا بیٹا تھا لیکن انہوں نے اپنی پارٹی کی بنیاد لاہور میں رکھی۔ یہاں سے الیکشن لڑا اور جیتا بھی۔ بعد ازاں یہ شہر مسلم لیگ کا گڑھ بنا اور کئی عشروں تک نواز شریف کے خاندان کی سیاسی جاگیر بنا رہا۔ ایک عقت ایسا بھی آیا کہ تینوں شریف برادران لاہور سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ عباس شریف نے شاہدرہ سے الیکشن لڑا تھا۔ عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف پاکستان کو عروج ملا تو عمران خان نے بھی لاہور میں الیکشن لڑنا پسند کیا۔ لاہور کی اسی سیاسی اہمیت کے پیشِ نظر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی اس بار داتا کی اس نگری سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ لاہور میں ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی 14 نشستیں ہیں جہاں پر کل 266 نام مدمقابل ہیں۔ ایک بڑی اور مقبول سیاسی جماعت الیکشن سے تقریبآ باہر ہے اور اس کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس وجہ سے الیکشن مہم میں وہ تیزی، جوش وخروش اور گہما گہمی دکھائی نہیں دے رہی جو ماضی میں لاہور شہر کا خاصا رہی ہے۔ بلا شبہ ہر الیکشن میں لاہور روائتی گہما گہمی کا سرخیل ہوتا تھا۔ اس بار لاہور شہر کے صرف ان حلقوں میں سیاسی میلے کا سماں نظر آتا ہے جہاں سے استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما عبدالعلیم خاں امیدوار ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی نے مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رکھی ہے۔ عبدالعلیم خاں کے حلقوں میں رونق اور روائتی گہما گہمی کا سبب کیا ہے۔ اس کا تجزیہ کرنے سے پہلے ہم لاہور سے الیکشن لڑنے والے تمام امیدواروں کی حلقہ بہ حلقہ فہرست پہ نظر ڈالتے ہیں۔ ای سی پی کی فہرست کے مطابق حلقہ این اے 117 سے کل 20 امیدوار میدان میں ہیں۔ امیدواروں میں تحریک پاکستان (آئی پی پی) کی جانب سے عبدالعلیم خان، پی پی پی کی جانب سے آصف ہاشمی، جماعت اسلامی (جے آئی) کے جہانگیر احمد اور آزاد امیدوار علی اعجاز بٹ شامل ہیں۔ اکمل باری اور گلوکار ابرارالحق۔ فہرست کو حلقہ این اے 118 تک بڑھا دیا گیا ہے جہاں اس نشست کے لیے 13 امیدوار میدان میں ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز شریف، پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے شاہد عباس، جماعت اسلامی کے محمد شوکت اور پی ٹی آئی کے رہنما محمد خان مدنی شامل ہیں۔ عالیہ حمزہ ملک آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ حلقہ این اے 119 میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز، پی پی پی کے افتخار شاہد اور ندیم شیروانی سمیت 18 امیدوار آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ این اے 120 میں منتقل ہونے والے، جہاں 27 نامزد امیدوار مدمقابل ہیں، نمایاں شخصیات میں مسلم لیگ ن کے ایاز صادق اور پی پی پی کے رہنما محمد خان مدنی شامل ہیں۔ عالیہ حمزہ ملک آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ حلقہ این اے 119 میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز، پی پی پی کے افتخار شاہد اور ندیم شیروانی سمیت 18 امیدوار آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ این اے 120 میں منتقل ہونے والے، جہاں 27 نامزد امیدوار مدمقابل ہیں، نمایاں شخصیات میں مسلم لیگ ن کے ایاز صادق اور پی پی پی کے منیر احمد شامل ہیں۔ این اے 121 میں 15 امیدواروں کے ساتھ مسلم لیگ ن کے شیخ روحیل اصغر اور آزاد امیدوار وسیم قادر مدمقابل ہیں۔ این اے 122 کے لیے 21 امیدوار، مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق، پی ٹی آئی کے لطیف کھوسہ اور آزاد امیدوار اظہر صدیق جیسی اہم شخصیات انتخابی دوڑ میں شامل ہیں۔ این اے 123، جس میں 16 امیدوار شامل ہیں، نمایاں شخصیات جن میں مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف، جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ، پی پی پی کے محمد ضیاءالحق، اور آزاد امیدوار افضل عظیم پہاڑ شامل ہیں۔ این اے 124 میں 13 امیدواروں کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے رانا مبشر اقبال اور آزاد امیدوار سردار عظیم اللہ اور ضمیر احمد جیسی شخصیات نمایاں ہیں۔ این اے 125 سے 19 امیدواروں میں مسلم لیگ (ن) کے محمد افضل کھوکھر، پی پی پی کے چوہدری عبدالغفور خان اور پی ٹی آئی رہنما جمیل اصغر بھٹی آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ این اے 126، جس میں 19 امیدوار شامل ہیں، کئی آزاد امیدواروں کے ساتھ مسلم لیگ ن کے سیف الملوک کھوکھر، پی پی پی-پی کے امجد علی، اور جماعت اسلامی کے امیر العظیم جیسے قابل ذکر سیاستدان مدمقابل ہیں۔ این اے 127 میں پچیس امیدوار ہیں۔ چئیرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کے عطاء اللہ تارڑ، پی ٹی آئی کے شبیر احمد گجر، جے آئی کے سید احسان اللہ وقاص میدان میں ہیں۔ اب دوبارہ ذکر چھیڑتے ہیں الیکشن کی گہما گہمی نہ ہونے کا۔ یہ ملک کا پہلا الیکشن ہے جس میں انتخابی مہم اپنی تاریخ کی سست رفتاری کے ساتھ چل رہی ہے۔ ابھی تک کسی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی ایک بھی بہت بڑا جلسہ نہ ہوسکا ہے، نہ کوئی زبردست ریلی نکالی گئی۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں،ان میں سے ایک بڑی وجہ پی ٹی آئی کا ان انتخابات میں فعال نہ ہونا ہے، وہ اگر پہلے کی طرح جلسے کررہے ہوتے تو مجبوراً دیگر جماعتوں کو بھی مدمقابل آنا ہی پڑتا۔ اب چونکہ میدان صاف ہے۔ لہٰذا کسی کو کیا پڑی ہے کہ اپنی توانائیاں ضائع کرتا پھرے۔ خان صاحب اگر میدان میں ہوتے تو ہرشہر میں ابھی تک کئی کئی جلسے کر چکے ہوتے اور اُن جلسوں میں جو گرمی اور جوش ہوتا وہ بھی قابل دید ہوتا۔دوسرے ملک کے حالات بھی اتنے اچھے اور موافق یا سازگار نہیں ہیں کہ وہ ایک لمبے عرصے کے لیے انتخابی مہم کا متحمل ہو پائیں۔ معاشی اور اقتصادی بد حالی بھی سیاسی جماعتوں کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ اقتدار میں آنے کے لیے بلند بانگ دعوے کرتے پھریں۔ سنجیدہ اور سمجھدار سیاسی قیادت کو معلوم ہے کہ الیکشن میں جیت کر حکومت سنبھالنا کوئی اتنا آسان اور سہل نہیں ہوگا۔ ملک کو درپیش معاشی بحران ابھی تک ٹلا نہیں ہے۔ ایسے میں جو بھی اقتدار حاصل کریگا وہ اگلے پانچ سال تک اپنی کریڈیبلٹی بچانے میں ہی لگا رہے گا۔ کوئی کرشمہ یا معجزہ ہی اُسے اس امتحان میں سرخرو یا کامیاب کر پائے گا۔ یہ ساری باتیں تجربے کار سیاست اچھی طرح جانتے ہیں ، شاید اسی لیے وہ خاموش بھی ہیں اور عوام کو جھوٹے وعدے کرکے بے وقوف بنانے سے بھی گریزاں ہیں۔ ان حقائق کے باوجود عبدالعلیم خاں نے اپنے قومی اسمبلی کے حلقے جو زیادہ تر راوی کے پار شاہدرہ میں ہے اور صوبائی اسمبلی کے حلقے جو گڑھی شاہو اور اس کے قریبی علاقوں پر مشتمل ہے میں انتخابی مہم کو مثالی عروج دیا ہے۔ جگہ جگہ ہورڈنگز، بینرز، سٹیمرز لگے نظر آتے ہیں۔ ہر گلی اور چوک میں ان کے انتخابی دفاتر کھولے گئے ہیں اور یہاں کارکنوں کا تانتا بندھا نظر آتا ہے۔ یہاں بیٹھنے والے ورکرز کی تواضع چوبیس گھنٹے جاری رہتی یے۔ استحکام پاکستان پارٹی اگرچہ نو وارد ہے تاہم اس جماعت کو پرو اسٹیبلشمنٹ ہونے کا ایڈوانٹیج حاصل ہے۔ دوسرا یہ کہ اسے بڑی جماعت ن لیگ سے انتخابی ایڈجسٹمنٹ کا بھی موقع ملا ہے جو الیکشن اور بعد ازاں حکومت سازی میں اس جماعت کو فائدہ دے گا اور وہ یقیناً اقتدار کا اہم حصہ ہوگی۔ تیسرے یہ کہ عبدالعلیم خان منجھے ہوئے اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ الیکشن کیسے لڑنا ہے اور ووٹر سے لے کر کونسلر اور یونین کونسل چئیرمینوں تک کس کو کیسے مینیج کرنا ہے یہ عبدالعلیم خاں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ ان کی ٹیم میں پر جوش اور متحرک ورکرز الحاج شعیب صدیقی کی قیادت میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ عبدالعلیم خاں فاؤنڈیشن کی سارا سال جاری رہنے والی فلاحی سرگرمیاں بھی عبدالعلیم خاں کے کام آ رہی ہیں۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عبدالعلیم خاں جہاں جہاں سے الیکشن لڑ رہے ہیں وہاں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فائدہ ن لیگ کو بھی ہو رہا ہے۔ ن لیگ بھی بڑی جماعت ہے اور اس کے کارکنوں کے پاس الیکشن کا اچھا خاصا اور طویل تجربہ ہے۔ ان انتخابات میں مگر جانے کیوں لیگی ورکرز میں عبدالعلیم خاں کے حلقوں جیسا کرنٹ نظر نہیں آرہا۔ شاید ن لیگ کے لیڈرز اور ورکرز کا یقین کی حد تک ایمان ہے کہ ” ساڈی گل ہوگئی ہے”۔ شاہدرہ میں اس سے قبل ن لیگ کے ایم این اے ملک ریاض تھے۔ وہ بھی اس حلقے کی سیاست کے گرو ہیں۔ ن لیگ کے نظریاتی ووٹر کے علاوہ ملک ریاض کی برادری بھی بڑی تعداد میں حلقہ این اے 117 میں آباد ہے۔ ملک ریاض عبدالعلیم کے ساتھ بھرہور الیکشن مہم میں شریک ہیں۔ غزالی بٹ نے بھی خوب ماحول بنایا ہوا ہے۔ یہاں پہ کمبینیشن بن گیا ہے تو اس کا فائدہ عبدالعلیم خاں کو ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسا کمبینیشن عبدالعلیم خاں کو گڑھی شاہو والے صوبائی حلقے میں نہیں مل پایا۔ حالانکہ اس حلقے سے وہ ماضی میں الیکشن جیتتے رہے ہیں۔ شاید کچھ قوتیں ان کو صوبے کی بجائے مرکز تک محدود رکھنا چاہتی ہیں۔ عبدالعلیم خاں کیلئے اشارہ سمجھنا کافی ہے۔
‏ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button