اسلام اور فرقے
انووک/ثناء آغا خان
دینی لحاظ سے مسلمان ہونے کے ناطے کچھ ایسے مذہبی عقائد ہیں جس میں خوشی اور غم ایک وقت تھا جب سب مشترک ہوا کرتے تھے۔ مگر اب تو سب کی اپنی اپنی الگ دیوار گریہ ہے۔ انتشار و افتراق کا یہ عالم ہے کہ صف ماتم بھی جدا جدا ہے اور عیدوں کے خطبے بھی الگ یہی نہیں بلکہ روگ اور سوگ کے پیمانے اور افسانے بھی یگانہ و منفرد ہیں۔
موت اور اس کا سوگ منانے کے دس ہزار طریقے ہیں کوئی مرنے والے کے ساتھ پتھر ہو جاتا ہے تو کوئی جنازے کے ساتھ جنازہ جوڑ لیتے ہیں۔ یہاں بات روایتی ، ثقافتی یا کسی فرقے کی نہیں رہتی بات تو دل اور کیفیت کی ہے۔
آج سے دو تین دہائیوں پہلے ایسا ہرگز نہیں تھا۔ دکھوں میں لوگ کسی سے سوال نہیں کرتے تھے کہ یہ کس کا دکھ ہے اور خوشیوں میں یہ پوچھتے نہیں تھے کہ اس جشن کی وجہ کیا ہے ۔ لوگ لوگوں سے ملتے تھے اس حسار سے بہت کم ملاقات ہوتی تھی جو لوگوں نے اپنے ارد گرد بنا رکھے تھے۔ اب تو فوتگی والے گھر میں بھی جانا ہو تو پہلے پوچھ لیتے ہیں کہ شیعہ مرا یا سنی ۔ آیا وہاں پر روٹی کھانی ہے یا نہیں یا صرف ان کے جنازے کا طریقہ دیکھنے جانا ہے۔
کیا یہ ہے ہمارا دین؟ اگر ہمارا دین ایسا ہوتا تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کوئی شخص دین اسلام کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔
صحن دل میں تماشہ کیسا ہے
شور و غل بے تحاشہ کیسا ہے
دشتِ کربل میں مردِ مومن نے
عشقِ یزداں تلاشا کیسا ہے
ماتمِ عشق ہے بپا ہر سو
بج رہا پھر یہ طاشا کیسا ہے!
ذہنِ ویراں نے دستِ لرزاں سے
اک صنم جو تراشا، کیسا ہے؟
کون آیا ہے آج گلشن میں
گل پہ طاری یہ رعشہ کیسا ہے
ضربِ غم گر نہیں لگی راجا
دردِ دل بے تحاشہ کیسا ہے
یہ موضوع تلخ ضرور ہے مگر اس پر اب اگر بات نہ ہوئی تو ہماری نسلوں کو روند دے گا۔ ہماری انے والی نسلیں شر پسندی اور فرقہ واریت کا بغض دل میں لے کر اپنی ترقی کی راہ میں خود حائل رہیں گئ۔
محرم کا چاند نظر آتے ہی پاکستان کے تمام مسلمان پوری دنیا کو میرے محبوب آقا دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم کے خوبصورت ترین دین کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ میں شیعہ’ میں شیعہ’ میں سنی’ میں سنی۔
واقعۂ کربلا کا غم ہر مسلمان کے دل کا دکھ ہے اور یہ اہل بیت سے محبت کی علامت ہے.جسے اس واقعۂ کربلا کا غم نہیں اس کی محبت اہل بیت سے ناقص اور جس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص ہے اس کا ایمان ناقص ہے ۔
شیعہ فرقہ میں تعزیہ بنانا،ماتم کرنا، شبیہ ذوالجنہ، سینہ پیٹنا،.محرم میں سیاہ کپڑے پہننے صدیوں سے روایت ہے۔ اپنی جان’ مال اور وقت تمام مسلمانوں بلکہ تمام تر انسانوں کو اپنی محبت اور عقائد سے بالاتر نہیں۔
علم و حکمت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ محبت کی کوئی دلیل نہیں ۔علم یہ ہے کہ کسی کے جھوٹے خدا کو بھی غلط نہ کہو کہ کہیں وہ اپ کے سچے خدا پر سوال نہ اٹھا دے۔ ہمارا دین ہمیں کبھی کسی کا مذاق یا اپنا تماشہ بنانے کا درس نہیں دیتا شیعہ سنی کی تقسیم ہم انسانوں نے کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آل نبی معتبر پیغام نبوت محبت تو ہم اپنے اعمال کو فرقہ کے عقائد سے معتبر یا گرا ہوا کیوں بنا رہے ہیں ؟
محدود علم اور لاعلمی کی معافی کا اعلان تو میرا پروردگار اپنی کھلی کتاب میں کر رہا ہے۔ جہالت کی معافی! لاعلمی کی معافی! ہاں اگر معافی نہیں ہے تو وہ کسی کی دل آزاری کی معافی نہیں ۔
مختلف عقائد میں محبت کا انداز مختلف ہے۔ پر ہے یہ محبت ہی کسی کو محبوب کی جدائی پر صبر آ جاتا ہے اور کوئی چیخو پکار کر کے ارد گرد والوں کو اکٹھا کر لیتا ہے۔ انداز الگ ہو سکتے ہیں پر محبت کا راستہ غلط نہیں ہو سکتا۔
خدارا میری گزارش ہے۔ تمام علم والوں سے جیسے ہمارے تمام بڑے باشعور علماء اکٹھے ہوتے ہیں اپس میں بہت پیار محبت سے ملتے ہیں مناظرے کرتے ہیں اور علم کو علم سے بانٹتے ہیں ۔ ہمیں بھی اپنے ذہنوں کے بند کھولنے چاہیے۔ ایسے علم کا کوئی فائدہ نہیں کہ آپ کے پاس لوگ بیٹھنے سے گھبرائیں۔علم تو وہ ہے جو کافر کو پوچھنے پر مجبور کر دے کہ تمہارا معلم کون ہے؟ علم صبر ‘برداشت اور ظاہر و باطل کا عملی جامہ ہے۔ اس حرمت کے مہینے میں شر پسندی کے لبادے اتار کر بس ایک امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم بن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کی اس قربانی کو انسانی شر پسندی کی نظر نہ کریں۔
یہ حسینی لنگر سبیلیں میرے پروردگار کا رزق ہے کسی کو اس پر دسترس حاصل نہیں۔ کون کیا کر رہا ہے اس کا فیصلہ پروردگار پر چھوڑ دیں۔ اس حرمت والے مہینے میں ہر سمت سے بس ایک ہی صدا آنی چاہیے لا الہ الا اللہ یہی کربلا کا درس ہے۔ لبیک یا حسین۔