عنوان: امارت سٹیٹس
تحریر ::: آمنہ عثمان
سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے لوگ کبھی نہیں جان سکتے کہ ایک غریب شخص زندگی کیسے گزارتا ہےبقول جاوید چوہدری آپ اے سی والی گاڑی میں بیٹھ کر باہر کی گرمی کا اندازہ کر ہی نہیں سکتے اس عمل سے گزرنے کے لئے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا پڑتا ہے۔ اس گرمی کو محسوس کرنا پڑتا ہے
۔ہمارے معاشرے میں اب لوگوں کے ملنے کا معیار عہدے ؛ امارت اسٹیٹس ہی رہ گیا ہے اسٹیٹس کیا ہے ؟ میری سہیلی ایک اونچے عہدے پر ہے یا اس کا ہسبینڈ ایک اچھی جاب کرتا ہے ؟. وہ ہر سال اپنا ڈرائینگ روم نئے سرے سے سیٹ کرتی ہے یا اس کا بچہ ایل جی ایس جے ٹی برانچ میں پڑھتا ہے تم نے سنا اس نے ابھی نئی لینڈ کروزر لی ہے واو ۔۔۔۔۔یا پھر کوئی شخص جو سب سے نمایاں اور اونچا نظر آتا ہے کسی بڑی پوسٹ کی وجہ سے یا انگریزی بولتا ہے ۔ہمارے ہاں انگریزی بولنے والے کو بڑا آدمی ہونے میں نمایاں مقام حاصل ہے میں انگریزی نہیں بول سکتی تو میں کافی لو اسٹینڈرڈ ہوں ۔ زیادہ تر لوگ انگریزی بولتے ہی ان کے سامنے ہیں جنہیں انگریزی آتی نہیں ہوتی دھاک بٹھانی ہوتی ہے نا
ٹرینڈ بنتا جارہا کہ جھوٹ بولنا ہے میں نے برانڈڈ کپڑے نہیں پہنے یا میں رکشے میں آئی ہوں تو مجھے جھوٹ بولنا چاہیے کہ آج میری گاڑی خراب ہو گئی تھی ۔ ورکشاپ گئی ہوئی ہے کامیاب اور امیر شخص سے ہر کوئی بات کرنا پسند کرتا ہے اور دوستی بھی کرنا چاہتا ہے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ یہ جو مشہور آدمی ہے یہ میرا دوست ہے اسکے اتنے فالوورز ہیں ۔ہر امیر آدمی کے ساتھ آپ کو ایسے بہت سے خوش آمدی نظر آئیں گے جن کا اپنا کوئی فائدہ نہیں ہو گا لیکن وہ اس رشتے دار کی شو ضرور ماریں گے آپ کو پتا ہے ان کے پاس بہت پیسہ ہے ابھی پچھلے مہینے میری دوست کو اس کے ہسبینڈ نے ڈائمنڈ کا سیٹ لے کر دیا ہے اب بندہ پوچھے اس کی دولت سے آپ کو کیا فائدہ ہے ؟
بس بھیڑ چال ہے اور کچھ نہیں ۔ پنجاب میں یہ رواج تھوڑا زیادہ ہے اس کی وجہ تعلیم کی کمی بھی ہو سکتی ہے اور رواج بھی ۔یہاں کے زیادہ تر لوگ اپنی نام نہاد دولت کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں میرے دادا کی بڑی جائیداد تھی ۔۔. بس اس پر کیس چل رہا ۔۔۔ ہم نے بڑی مہنگی گاڑی بک کروائی ہوئی ہے . بس جلد ہی آ رہی ہے میں تو بہت مہنگی جگہوں پر کھانا کھاتی ہوں میں تو کہیں جاوں تو کسی کو سستا گفٹ دے ہی نہیں سکتی ۔
جھوٹ اور ریاکاری معاشرے کا حصہ بنتی جا رہی جس سے باقی افراد کا جینا مشکل ہو گیا ۔ایک شخص آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع میں اتنا ہلکان ہو جاتا کہ اس کے بعد پورا مہینہ اس کے بچے دال کھاتے ہیں اور دوسرا سوچ رہا ہوتا اب یہ آئیں گے تو مجھے بھی اتنے ہی انواع اقسام کے کھانے بنانے پڑیں گے
موجودہ پنجاب میں ایک گھر میں چودہ بندے رہتے ہیں اور صرف ایک شخص کماتا ہے اور باقی اس کی کمائی کی شو مارتے نظر آتیے ہیں اوور سیز کی بات کی جائے تو وہ بے چارے بس پیسہ کمانے کی مشین بنے ہوئے یہاں بیٹھے گھر والے ان کے پیسے پر اپنے گھر بنا لیتے اور ان کی بیویاں ساس سے خرطہ مانگ کر گزارا کرتی ہیں
کراچی میں اس کے برعکس لوگوں کا انداز. بہت مختلف ہے وہاں ہر شخص بی اے بی ایڈ ایم ایڈ ایم فل پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرتا ہے اور اچھی نوکری پر لگا نظر آتا ہے لڑکے لڑکیاں اپنے ذاتی فلیٹ بک کرواتے ہیں ۔۔۔ کالج اسکول جانے کے لئے خواتین اپنے وسائل خود استعمال کرتی ہیں وہ خودمختار ہیں اور ان کے والد بھائی یا خاوند انہیں منزل تک پہنچانے کا کام۔نہیں کرتے ۔ترقی کے اس سفر میں اگر آپ خودمختار ہونا چاہتے ہیں تو ہمت کریں اور سادگی کو اپنائیں
ہماری نمودونمائش کی عادت ہمیں ہماری خواہشات کے چنگل سے باہر نکال ہی نہیں پاتی
کچھ عرصہ پہلے میرا بھی شمار انہی لوگوں میں ہوتا تھا جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی نظر میں غریب آدمی ایک فالتو شے ہوتی ۔ کوئی جا رہا آ رہا فرق نہیں پڑتا ۔پیسہ گاڑیاں دولت کی ریل پیل آپ کو بھلا دیتی کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے.. میرے بھی جب مالی حالات خراب ہوئے تو میں باہر نکلی اور مجھے عام لوگوں سے ملنے کا موقع ملا اور انہیں جانا کہ یہ بھی لوگ ہیں ۔۔۔۔ انہی دنوں مجھے ایک ادارے اردو پوائنٹ میں کام کرنے کا موقع ملا اور ان کے توسط سے میں غریب اور معزور لوگوں کو ملنا شروع ہوئی تب احساس ہوا کہ زندگی تو یہ ہے
مجھے احساس ہوا کہ اگر آپ اپنے دل کو مردہ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو یتیم کے سر پر ہاتھ رکھیں معزور کے ساتھ وقت گزاریں اور نمودونمائش سے باہر نکلیں صرف ٹی بیگ والی چائے زندگی نہیں ہے ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ڈھابے کی چائے نے میری زندگی کو بہت خوبصورت بنا دیا ۔جب میں نے وائس سوسائیٹی ایک معزور بچوں کے ادارے میں وقت گزارنا شروع کیا تو جانا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے اس ادارے کے تمام ڈائیریکٹر بھی معزور تھے اور کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے سوچا کہ بیک ورڈ ایریا سےیتیم معزور بچوں کو لا کر ایک نئی اور کامیاب زندگی دی جائے وہاں ان افراد کو ہی جاب کا موقع دیا جاتا جو معزور ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہیں
ایسے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا کسی بھی شخص کے لئے صدقہ جاریہ ہو سکتا ان کے لئے کھانا ؛ کیک ؛ ٹافیز لے جانا ان کے ساتھ گیمز کھیلنا اپنی سالگرہ ان کے ساتھ منانا ایک احساس ہے جو انہیں یہ باوور کروا سکتا کہ وہ بھی معاشرے میں مقام رکھتے ہیں جو خوشی ان کے ساتھ سالگرہ منا کر حاصل کی جا سکتی مہنگا ترین فنکشن بھی اس کی جگہ نہیں لے سکتا
سگنل پر کھڑے پھول بیچتے بچے بھی اس کی ایک بہترین مثال ہیں وہ آپ سے کچھ نہیں مانگتے بس ایک محبت بھری مسکراہٹ
دے کے دیکھئے زندگی سفل ہو جائے گی