کالم

وقت کی قدر اور پاکستانی معاشرہ

تحریر ۔۔۔۔شہزاد بھٹہ

کل ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا مہمانوں کو دو بجے کا وقت دیا گیا اور جن صاحب کے اعزاز میں استقبالیہ تھا وہ ساڑھے چار بجے کے بعد تشریف لائے اور سوری کہہ کر بات ختم کر دی صاحب کو اندازہ ھی نہیں تھا کہ جو لوگ بدقسمتی سے دو بجے آگئے تھے وہ لازمی اپنے دفتر یا گھر سے ایک گھنٹے پہلے یعنی بارہ ساڑھے بارہ بجے چلے ھوں گئے
یہی ھماری پوری قوم کا المیہ ھے کہ ھم صرف جنازے اور عیدین کی نماز کے وقت ھی پابندی وقت کا خیال رکھتے ہیں باقی زندگی کے معاملات میں کبھی بھی وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے کاروباری شخصیت آدھا دن ضائع کرکے تقریباً بارہ بجے کے بعد ھی اپنا کاروبار شروع کرتے ھیں اور پھر رات گئے تک دوکانیں کھلی رکھتے ہیں دفاتر میں دو تین گھنٹے دیر سے جانا معمولی بات ھے شادی بیاہ کی تو بات ھی چھوڑیں وہ تو اللہ بھلا کرے کہ شادی گھر دس بجے بند ھو جاتے ھیں
نہیں تو ایک وقت تھا کہ گیارہ بارہ بجے سے پہلے بارات ھی نہیں آتی تھی اور دو بجے کھانا اور پھر تین چار بجے رات بارات کی روانگی ھوتی تھی ۔۔۔
اب بھی شادی کارڈ پر وقت کا شیڈول کچھ اور ھوتا ھے اور عمل کچھ اور ھوتا ھے بارات دو ڈھائی گھنٹے لیٹ انا معمول کی بات سمجھی جاتی ھے
الحمد ھم سب مسلمان ھیں اور اسلام میں وقت کی پابندی کی بڑی فضیلت ھے بلکہ دنیا کا سارا انتظام ھی اسی اصول کے تحت چل رھا ھے سورج چاند ستارے دن رات اپنے اپنے مقررہ وقت پر ھی عمل پیرا ھے موسم بھی اپنے اپنے وقت مقررہ پر ھی آتے ہیں ھر انسان بھی اس دنیا میں ایک خاص وقت کے لیے آتے ہیں اور پھر مقررہ وقت گزر کر دنیا سے رخصت ھو جاتے ھیں اگر دن میں نمازوں کی بات کریں تو پانچواں نمازوں فجر ظہر عصر مغرب اور عشاء کے اوقات بھی مقرر ھیں تو پھر ھم مسلمان اپنی زندگیوں میں وقت کی پابندی کیوں نہیں کرتے ساری زندگی ایک بے ترتیبی کے ساتھ گزر جاتی ھے صبح اٹھانے کا کوئی وقت نہیں اور نہ ھی رات سونے کا وقت مقرر نہیں ھے کسی کو ملنے کا وقت دیں تو شاھد ھی کوئی وقت پر پہنچتا ھو
یہ بات شاھد ھے کہ دنیا میں جس قوم نے بھی ترقی کی ھے اس نے وقت کی قدر کی ھے اور پابندی وقت کو اپنی زندگیوں کا اولین مقصد بنایا ھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button