
علامہ محمد اقبال ایسے حکیم الامت اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام تیار کرنے والا معتبر تعلیمی ادارہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (جی سی یو) لاہور کا شمار ملک کی قدیم ترین علمی درسگاہوں میں ہوتا ہے۔ اس ادارے کا بنیاد سر ولیم لائٹنر نے 1816میں رکھا تھا اسکے بعد پنجاب یونیورسٹی وجود میں آئی تھی۔ اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید اصغر زیدی کو خصوصی طور پر آکسفورڈ یونیورسٹی انگلینڈ سے بلاکر اس جامعہ میں بطور وائس چانسلر تعینات کیا گیا۔انہیں یہ منصب سنبھالے ساڑھے تین برس ہوگئے ہیں۔ اس دوران جی سی یو نے کئی شعبوں میں قابل قدر کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ ڈاکٹر اصغر زیدی جو خود بھی اسی درسگاہ کے طالب علم رہے نے عزم ظاہر کیا ہے کہ یہ جامعہ ایک بار پھر ایسی عظیم ہستیاں پیدا کرے گی جن پر ملک و قوم کو فخر ہوگا۔ ڈاکٹر اصغر زیدی اس سے پہلے جنوبی کوریا کے یونیورسٹی میں بھی پروفسیر رہے۔ جی سی یو نے نامور شخصیات، ٹاپ لیڈر شپ اور بیورو کریٹس پیدا کئے جن میں علامہ اقبال، فیض احمد فیض، م ن راشد، صوفی تبسم، خواجہ خورشیدانور، پطرس بخاری سر فہرست ہیں۔ زیدی صاحب سے اولڈ راوین یونین اور دیگر پیشہ ورانہ فورمز پر رابطہ رہتا ہے۔ کئی دن ملاقات نہ ہو تو ان کا سوشل میڈیا ایکٹو ازم دوری کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ سماجی رابطے کی قریباً تمام ویب سائٹس اصغر زیدی کی گویا اپنی ہی سائٹس ہیں جن پر وہ متحرک رہ کر راوینز، اولڈ راوینز اور دیگر حلقوں کو تسلسل سے آگاہ رکھتے ہیں کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں کیا ہو رہا ہے، کیا ہونے جارہا ہے اور یہ بھی کہ کیا نہیں ہونے دیا جارہا۔ چند روز قبل اصغر زیدی صاحب کا حکم آیا کہ میرے دفتر پہنچیں۔ حکم بجا لاتے ہوئے یہ عاجز اور قلم کے دو اور مزدور وائس چانسلر آفس کو چل دئیے۔ مین گیٹ سے داخل ہوئے تو وائس چانسلر آفس تک بل کھاتی سڑک بتدریج بلند ہوتی ہے۔ اس بلندی کو دل اور دماغ یوں محسوس کرتے ہیں کہ آپ علم وفکر کی اس بلندی کو پارہے ہیں جو اس درس گاہ سے مخصوص ہے۔ وی سی آفس پہنچے تو پروٹوکول سٹاف رہنمائی اور استقبال کیلئے موجود تھا، بڑی خوشگوار حیرت ہوئی اور طالب علمی کے وہ دن یاد آگئے جب ڈر کے مارے وی سی آفس کے پاس بھی نہ پھٹکنے تھے اور اقبال ہوسٹل پہنچنے کیلئے ٹینس لان والا طویل روٹ اختیار کرنا گوارا ہوتا تھا۔ وی سی آفس پہنچے تو ڈاکٹر اصغر زیدی نے فرمایا کہ جس طرح لاہور لاہور ہے۔ اسی طرح جی سی یو ، جی سی یو ہے۔ میں نے اپنی تمام تر توانائیاں اس مادر علمی کو اس کا تشخص دینے میں صرف کی ہیں۔ ڈاکٹر اصغر زیدی نے بتایا کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں 40 کے قریب مضامین آفر کئے جاتے ہیں۔ میرے دور میں گریجوایشن لیول پر جینڈر سٹڈیز، ڈیزاسٹر اینڈ کلائمیٹ چینج، لاء، ماس کمیونیکیشن اور بزنس سٹڈیز، انٹرنیشنل ریلیشنز ، الیکٹرانکس، ایم فل لیول پر فشریز اینڈ ایکواکلچر متعارف کروائے گئے۔ دو نئے انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کا اعزاز ملا ہے جن میں انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری اور انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل سائنسز شامل ہیں۔ فارمیسی کے شعبے میں بھی انقلابی تبدیلی لارہے ہیں۔ انٹرمیڈیٹ میں داخلوں کیلئے سٹیٹ آف دی آرٹ اسیسمنٹ نظام وضع کیا یے۔ طالب علم کے نمبروں کے ساتھ اس کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور انٹرویو بھی کیا جاتا یے تاکہ اس کے ذہنی رجحان کو سامنے لایا جا سکے۔
والدین کی سہولت کیلئے پشاور، کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں داخلہ پراسیس کیا گیا اور امیدواروں کے ٹیسٹ منعقد کئے ۔ 25 کالجوں کو جی سی یو سے الحاق دیا گیا ہے۔ بنکوں میں جی سی یو کے پڑے کروڑوں روپوں کو مجاز اتھارٹی کی اجازت سے نکالا گیا ہے اور اس رقم سے روائتی کلاس رومز کو سمارٹ کلاس رومز میں تبدیل کیا گیا ہے۔ فرانس، برطانیہ، ترکیہ، آذربائجان اور چین کے تعاون سے جی سی یو میں ان کے سنٹرز آف ایکسی لینس قائم کئے جا رہے ہیں۔ پرو وائس چانسلر کا تقرر کیا گیا ہے، عرصے سے زیر التوا سلیکشن بورڈز کے اجلاس منعقد کر کے فیکلٹی کی تعداد پوری کی گئی ہے۔تمام 30 گیمز جو ایچ ای سی کے پینل پہ ہیں ان میں ہماری ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ پہلی بار سپورٹس کوٹے پر طالبات کے داخلے ممکن بنائے ہیں۔ مردوں کی میراتھن کے بعد خواتین کی میراتھن منعقد کی گئی۔ نیا سوئمنگ پول بنایا جا رہا ہے۔ پرانی مسجد کی جگہ مسجد کمپلیکس بنایا جا رہا یے جس میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے گا۔ معتدل معاشرہ فروغ دینے کیلئے STEP کے نام سے طلبا کونسل بنائی گئی یے۔ ہر مکتبہ فکر کے عالم دین کو ہم یونیورسٹی میں آنے اور اظہار خیال اور طلبا سے ڈائیلاگ کا موقع دیں گے۔ کالا شاہ کاکو کا بیس پچیس کلومیٹر دور واقع کیمپس فعال کردیا۔ وہاں متعدد شعبے شان دار طریقے سے چلائے جا رہے ہیں۔ کالا شاہ کاکو کیمپس مستقبل میں جی سی یو کے تقاضے پورے کرے گا اسے فنکشنل کرنا ایک بڑا مرحلہ تھا جسے خدا کے فضل سے شروع کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اصغر بولتے جا رہے تھے اور ہم حیرت سے انہیں تکتے جا رہے تھے کہ کس طرح ساری تفصیلات اور اعداد و شمار ان کو ازبر ہیں۔ ڈاکٹر اصغر زیدی نے سوال اٹھایا کہ کتنے تعلیمی ادارے ہیں جو اس وقت اقبالیات کو مدنظر رکھ کر تعلیم دے رہے ہیں۔ اقبالیات اور صوفی ازم دونوں کے راستے الگ ہوسکتے ہیں مگر منزل ایک ہی ہے اور وہ منزل ہے قرآن اور سیرۃ ۔ یہی وہ پیغام ہے جو علوم کا منبع اور مآخذ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیوکیمپس کالا شاہ کاکو میں صوفی ازم سنٹر بنایا گیا۔ ہمارے نظام تعلیم کا زوال اس وجہ سے بھی ہے کہ ہم نے روائتی آئیڈلز کو فراموش کردیا۔ ورلڈ آرڈر تبدیل ہورہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اپنے نصاب میں ضروری تبدیلیاں لانی ہیں، اصلاحات کی طرف توجہ دینی ہے، درس وتدریس کی تکنیک میں وہ تبدیلیاں لانی ہیں کہ ہم سپر پاور کے ساتھ کھڑے ہوسکیں۔ انہوں نے مژدہ سنایا کہ نیو ورلڈ آرڈر کے بڑے کھلاڑیوں کے نزدیک پاکستان کی بڑی اہمیت ہے۔ اس اہمیت کو بھانپتے ہوئے ہماری یونیورسٹیوں کو بھرپور تیاری کرنی چاہئے۔ ڈاکٹر اصغر زیدی نے بتایا کہ ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ملنے والا نوبل انعام کا اصل سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا اور اسے وی سی آفس میں پورے شایان شان طریقے سے شیشے کے بکس میں سجادیا ہے۔ ممتاز اولڈ راوینز کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ ابھی تک اعتزاز احسن، حدیقہ کیانی، رمیز راجہ، ثمر مبارک مند اور شفقت امانت علی کو ایوراڈ دے چکے ہیں۔ اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔ ڈاکٹر اصغر زیدی نے بتایا کہ جی سی یو میں تقریباً 15000 طلبا ء و طالبات زیر تعلیم ہیں یہاں انٹر میڈییٹ سے لیکر ایم۔ فل اور پی ایچ ڈی تک پڑھایا جاتا ہے اس جامعہ میں 157 ویں سالگرہ پر نئے کیمپس کا بھی اجراء کیا گیا جو طلباء میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرے گا۔ وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ جو قابل طلباء صرف اس وجہ سے اعلےٰ تعلیم سے محروم رہتے ہیں کہ ان کی مالی حالت کمزور ہوتی ہے اس جامعہ کے دروازے ان کیلئے کھلے ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ چانسلر سے اجازت لیکر پاکستان کے تمام صوبوں اور دور دراز علاقوں میں بھی اس یونیورسٹی کے کیمپس کھولے جائیں تاکہ ان پسماندہ علاقوں کے طلباء اور خصوصی طور پر طالبات کو گھر کے دہلیز پر تعلیم میسر ہوسکے۔ اس جامعہ میں طالبات کی رہائش کیلئے فاطمہ جناح کے نام پر گرلز ہاسٹل موجود ہے مگر اس کے طرز پر ایک دوسرا ہاسٹل بھی تیار کیا جارہا ہے تاکہ مزید طالبات کو بھی رہائش کی سہولت میسر ہوسکے اور دور دراز سے آنے والی طالبات کو ان ہاسٹلز میں رکھا جائے۔
وی سی ڈاکٹر اصغر زیدی کی خواہش ہے کہ اس جامعہ کا تعلیمی معیار ایسا بڑھایا جائے جہاں صرف طلبا ڈگری نہ لیں بلکہ عملی طور پر بھی کچھ کرکے دکھائیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس جامعہ میں پاکستان کا قدیم ترین بوٹانیکل گارڈن موجود ہے جو 1812 میں قائم ہوا تھا اور اسے 1912 میں اس جامعہ کے حوالہ کیا گیا اور یہ ملک کے تمام بوٹانیکل گارڈنز کا نیٹ ورک بھی ہے۔ وی سی اصغر زیدی کے نظرئے کے مطابق ہم تعلیم سے غربت کا حاتمہ کر سکتے ہیں اور سماجی ترقی سے اپنا معیار بلند کرسکتے ہیں۔ نوجوان نسل کو اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ کبھی مایوس نہ ہونا اور ترقی کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اپنی روایات کے باعث منفرد پہچان رکھتی ہے۔ مرکزی عمارت کے سامنے اوول گراؤنڈ، مشرقی طرف ایمفی تھیٹر اور علامہ اقبال ہاسٹل کی خوبصورتی انتہائی جاذب نظر ہے۔ یہاں کے ”لو گارڈن“ کے ساتھ بے شمار داستانیں وابستہ ہیں جس کا تذکرہ بانو قدسیہ کے ناولز میں بھی ملتا ہے۔ وکٹورین طرز کی اس عمارت کو گھنے درختوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کالج کی یہ عمارت 1874 ء میں مکمل ہوئی تھی جہاں سر گنگا رام اور کنہیا لال جیسے نامور انجینئرز نے تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج میں پڑھنا اور راوین کہلانا آج بھی فخر سمجھا جاتا ہے۔ ہم اس فخر کو سلامت رکھیں گے۔ جی سی یو کو جی سی یو بنا کے رکھیں گے۔