کالم

سوشل جسٹس ڈے. . . یوم سماجی انصاف

سوشل جسٹس ڈے. . . یوم سماجی انصاف

تحریر بسم اللہ ارم

شوشل جسٹس ایک بین الاقوامی دن ہے جسے نومبر 2007 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے منظور کیا اور 20 فروری کو باقاعدہ طور پر یوم سماجی انصاف کا دن منانے کا اعلان کیا گیا پہلی بار 2009 میں اس دن کو بین الاقوامی سطح پر منایا گیا اس دن کے منانے کا مقصد سماجی انصاف کے فروغ دینے کو تسلیم کرنا ہے جسمیں غربت کے خاتمے انصاف صنفی مساوات بےروزگاری سماجی تحفظ سماجی سیاسی حقوق سے نبٹنے جیسی کوششیں شامل ہیں روزگار کے بھرپور اور یکساں مواقع پیدا کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کو اجاگر کرنا سماجی مکالمہ اور کام کی جگہ پر بنیادی اصولوں اور حقوق کے ذریعے منصفانہ نتائج کی ضمانت دینے کی عکاسی کرتا ہے انصاف ہر معاشرے کا حسن اور اس کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے دنیا کے تمام آئینوں کی بنیاد معاشی معاشرتی و سیاسی انصاف پر رکھی جاتی ہے دنیا کے تمام مذاہب ایک نصب العین کی حیثیت سے انصاف کی اہمیت پر زور دیتے ہیں آئین کی نظر میں سب انسان برابر ہے بین الاقوامی سطح پر جہاں سماجی انصاف کو معاشرے نے فروغ پا یا وہاں ترقی ہوہی امریکا چین جاپان کی مثالیں ہیں جہاں ترقی کی بنیادی وجہ سماجی انصاف ہےمگر جہاں سماجی انصاف کو نظر انداز کیا گیا وہاں ناانصافی حق تلفی غربت و افلاس بے روزگاری جیسے مسائل میں اضافہ ہوا کوئی بھی معاشرہ عدل و انصاف کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا سماجی انصاف سے مراد معاشرے میں بسنے والے تمام طبقات کو یکساں مواقع میسر ہونا ہے مگر کیا مظلوں کو انصاف مل رہا ہے معاشرہ میں موجود مظلوم کی کوئی فریاد سن رہا ہے محتاجوں کا کوئی سہارا بنتا ہے تعلیمی اداروں اور صحت کی سہولتوں میں طبقات کا فرق واضح ہے بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ جن کو یونیورسٹیوں سے ڈگریاں مل رہی ہیں ے روزگار ہیں یعنی انصاف کہاں ہے کیا مظلوم کی فریاد کوئی سنتا ہے آج بھی خواتین کو انفارمیشن ٹرانسپورٹ اور سماجی رویوں کے حوالے سے مساہل کا سامنا ہے معذور افراد کے حوالے سے بے شمار مسائل جوں کے توں ہیں ان کی سماجی حیثیت میں بہتری لانے کے لئے ہم کس حد تک انصاف کر پائے ہیں بے گناہ قتل ہونے والوں کو اس معاشرے میں انصاف کہاں دیا جارہا ہے زبانی جمع تفریق کے ذریعے لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے پولیس جرائم رپورٹ کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں بسنے والے لوگوں میں انصاف نام کی کوئی چیز پیدا ہی نہیں ہوئی کیا ملک کی عدالتیں سب کو برابر انصاف فراہم کر رہی ہیں وہ سہولتیں وزیروں مشیروں اور سرکاری افسروں کو میسر ہیں ان میں سے دس فیصد بھی عوام کو فراہم نہیں مگر ووٹ دونوں کا برابر ہے تو پھر یہ تفریق کیوں ملک میں بہت سے قوانین تو بنا دیے گئے ہیں لیکن انصاف نظر نہیں آتا اور آج بھی امیروں اور غریبوں کے لئے دو قانون نظر آتے ہیں سماجی انصاف کا مطلب تو یہ ہونا چاہئے کہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو ادنی اور اعلی کے امتیاز رنگ و نسل کی تفریق مذہب و مسلک کی کے بغیر یکساں اور مساوی حقوق دیے جائیں اگر عالمی تناظر پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے نہ صرف اپنی عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے سے قاصر ہیں محض زبان کے ذریعے انصاف کی بات کرنا دلکش ضرور ہے مگر اس سے مقاصد حاصل نہیں ہو رہا عدل و انصاف کا پیمانہ عالم انسانیت میں قیام انصاف کے بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے انصاف کی فراہمی کے لیے انصاف پسندی کا ہونا بہت ضروری ہے جو قومیں انصاف پسند نہیں ہوتی معاشرتی طور پر ہرگز انصاف نہیں کر سکتی دنیا میں اس وقت جو بگاڑ آیا گئے اور یہ اانصاف نا ہونے کی بنیاد پر ہے ہم دنیا کے حالات کا مطالعہ کریں اور مختلف بادشاہوں حکمرانوں کے دور حکومت کا جائزہ لیں تو با خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ قوموں میں صرف ایک چیز مشترک تھی اور وہاں ان ریاستوں میں عدل و انصاف کو قیام تھا اور قانون سب کے لئے برابر تھا مگر موجودہ ادوارمیں سماجی انصاف کے نام پر غریب عوام اج بھی انصاف کے بازاروں میں دھول چاٹ رہی ہے ھر طرف انصاف کا خون اور ہے نا انصافی اور حق تلفی بے روزگاری غربت و افلاس پورا ملک کراہ رہا ہے اور ہر جانب مایوس گھٹن عدم تحفظ اور نا امیدی کا ماحول ہے انصاف کے حصول کے لیے لوگوں کو سالوں سال تک بھٹکنا پڑتا اور اس کے باوجود بھی انصاف کا حصول ہو جانے اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی معاشرہ عدم توازن کا شکار اور قانون کی حکمرانی کے بغیر معاشرے کے توازن کو قائم کرنا ناممکن ہے ہم سب کو اس کے کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ معاشرے کے اندر توازن لایا جاسکے معاشرتی عدم توازن ایک گلوبل مسئلہ ہے سماجی انصاف کے دن کی مناسبت سے تعلیمی اداروں میں طلباء کی اس کو سماجی انصاف کے متعلق بتایا جائے سلیبس میں سوک ایجوکیشن کو شامل کیا جائے ماہرین کا کہنا ہے کہ سماجی انصاف کے بارے میں علم اگر ابتدا میں بتایا جائے تو یہ طلباء عملی زندگی میں آکر کافی حد اپنے قول و فعل سے سماجی انصاف کے لئے حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کیونکہ نوجوان ہماری قوم اور مستقبل کا سرمایہ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button