کالم

ماں بولی کا دیہاڑا یعنی مادری زبان کا دن

ماں بولی کا دیہاڑا یعنی مادری زبان کا دن
۔ ۔ ۔ تحریر بسم اللہ ارم ۔ ۔ ۔

پاکستان ایسی محبت اور اتحاد کی ایک اعلی مثال ہے کیونکہ یہاں پر مختلف علاقوں میں مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں پاکستان میں 74 زبانیں بولی اور سمجھی جاتی تھی ان میں سے 66 مقامی اور 8 غیر مقامی ہیں مگر کافی زبانیں غیر فعال اور متروک ہونے کے خطرے کا شکار ہیں پاکستان میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں پنجابی سرائیکی سندھی پشتو اردو کوہستانی کشمیری ہندکو بلوچی اہم اور اس کے ساتھ ان زبانوں کی شاخیں بھی شامل ہیں انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے تمام معاہدے اور سرکاری کام انگریزی زبان میں تحریر کئے جاتے ہیں جب کہ اردو پاکستان کی قومی زبان دفتری زبان قومی زبان ہی استعمال ہوتی ہے تاہم زیادہ تر خط و کتابت انگریزی میں بھی ہوتی ہے ان سب زبانوں کے ساتھ اشاروں کی زبان پاکستان کے ہر صوبہ میں سمجھی جا سکتی ہے ماضی میں پاکستان میں مردم شماری میں صرف نو زبانیں بولنے والوں کا اندراج کیا جاتا رہا جبکہ درجنوں چھوٹی زبانوں کو نظر انداز کر دیا گیا جوبولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے تو چھوٹی زبانی کہلائی جا سکتی ہے لیکن ان کے اندر صدیوں پرانی لوگ دانش کہاوتوں بولیوں گیتیوں اور داستانوں کا خزانہ موجود ہے بعض زبانوں کو خطرے میں شمار کیا جا رہا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتا نہایت قلیل رہ گئی اور مادری زبان زبانی اولء نسلی زبان کے پیدائشی زبان کسی انسان کو اس زبان کو کہا جاتا ہے جس کو بچپن میں بچہ ماں باپ سے سیکھے اور زبان کو اختیار کریں مادری زبانیں پیاری اور مہربان ہوتی ہے مادری زبان کی بدولت انسان جلد سیکھتا ہے جو ماں بولنا سکھاتی اور مادری زبان اظہار کا بہترین طریقہ ہے جب والدین بچوں کو مادری زبان نہیں سکھاتے تو زبان میں لہجوں میں فرق آنے سے مادری زبانیں آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہیں بچے کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان کے ذریعے بچے کا بنیادی حق ہے دنیا میں آنے والا ہر بچہ سب سے پہلے اپنی ماں کی بولی ہی سیکھتا ہے اس لیے ہمیں 21ویں صدی میں یہ حقیقت مان لینی چاہیئے کہ کسی بچے کی ماں کی زبان ہی وہ پہلی زبان ہے جو بچہ ان کی گود میں سیکھتا ہے اور اسے اس فطری زبان میں ماں کی ازلی محبت ملتی ہے مگر ہمارے ہاں لوگوں نے ترقی کا راز تبدیلی لباس اور تبدیلی زبانی انگریزی کو سمجھ لیا ہے ماموں تایا چچا سب کو انکل کہہ کر پکارا جا رہا ہے کزن کا رشتہ متعارف کروا کر بہت سارے رشتوں کو روند دیا گیا ہے اور رشتوں سے آشنائی ختم ہوتی جا رہی ہے تعلیمی اداروں میں بچوں کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہوں تو رشتوں کی پہچان کو وہ سمجھ سکیں مگر ہمارے ہاں تو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پنجابی زبان میں بات کرنے والے طلبہ و طالبات کو سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے مادری زبان شناخت اور منفرداظہار کا بہترین ذریعہ ثقافت تاریخ فن اور ادب مادری زبان کا مرہون منت ہوتا ہے علاقاہی مادری زبانیں منفرد انداز فکر وسعت اور بے شمار روایات رکھتی ہیں زبان کا ختم ہوجانا ثقافت اور تہذیب کو ختم کر. دیتا اہے قوموں کو تباہ کرنا تو ان سے زبا ن چھین لی جاتی ہیں زبان قوم کو لڑی میں پرونے کا نام ہے جو معاشرے اور دانشور اپنی دھرتی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں ان کا تعلق اپنی مٹی کے ساتھ مضبوط ہوتے تو ان ممالک کی عوام اپنی ثقافت زبان اور اپنی تاریخ پر فخر کرتی ہے مادری زبان ثقافتی ورثے کی بقا اور اس کے فروغ کا سب سے مؤثر انداز سمجھا جاتا ہے زبان مٹا دینے سے روایات تہذیب تاریخ قومیت غرض سب کچھ مٹ جاتا ہے اگر جائزہ لیں توترقی یافتہ ممالک نے اپنی مادری زبان کو اہمیت دی وہاں ترقی کا عمل تیزی سے پروان چڑھا جیسے انگلینڈ امریکہ نے انگریزی بنگلہ دیش میں بنگالی چین جاپان جرمنی اور ترکی حتی کہ عرب ممالک نے بھی اپنی مادری زبان قائم رکھیں وہ لوگ اپنی مادری زبان کے علاوہ نہ کوئی زبان سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی لکھنا جاننا چاہتے ہیں کے ہر مقام پر اپنی اپنی مادری زبان کو فروغ اور اہمیت دیتے ہیں اگرچہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اسے صوبوں اور وفاق میں باہم رابطے کی زبان کہا جاتا ہے مگر پاکستان میں اردو کے ساتھ ساتھ ہماری دوسری زبانیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں پنجاب میں پنجابی زبان کو وہ مقام ملتا چلا جا رہا ہے جو اس کا حق ہے اگرچہ پنجابی سکولوں میں نہیں پڑھائی جاتی لیکن پڑھے لکھے لوگ اپنی عام بول چال میں پنجابی زبان میں ہی بات کرتے دیکھے جا رہے ہیں ماہر نفسیات اور ماہرین تعلیم دونوں کے نزدیک تعلیم مادری زبان میں دینی چاہیے 21 فروری کو ماں بولی کا دن تو مناتے ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری و علاقوں زبانوں میں اور ثانوی اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے تو ایک طرف تو مادری زبانیی پروان چڑھے گی اور دوسری طرف طلبہ و طالبات میں اعتماد میں اضافہ ہوگا ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئے گی مادری زبان کو بولنے پر لوگ فخر کریں گے اور تہذیب و ثقافت محفوظ ہوگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button