کالم

مُلکی مسائل اور بے روزگاری

تحریر : علی بیگ

قیام پاکستان کے وقت سے ہی ہمارا مُلک نت نئے مسائل کا شکار رہا_ پاکستان اور بھارت کی سرحدی تقسیم، بنکوں کے اثاثوں اور فوجی اثاثوں کی تقسیم میں بے انصافی کی گئی_ لارڈ ماونٹ بیٹن ہر صورت اور ہر حال میں بھارت کو غیر قانونی اور نا انصافی کے ہتھکنڈوں دے خوش کرنا چاہتا تھا_ ریاستوں کے الحاق کے طے شدہ طریقہ کار پر عمل نہ کیا گیا متعدد ریاستوں نے پاکستان سے اپنے الحاق کا فیصلہ کیا مگر بھارت نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر کشمیر، حیدر آباد، جونا گڑھ وغیرہ کئی ریاستوں پر قبضہ کر لیا_ کشمیر پر بھارتی فوج کے حملے پر قائد اعظم نے پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف کو کشمیر میں پاکستانی فوج داخل کرنے کا حکم دیا مگر انگریز کمانڈر انچیف نے مختلف فنی بہانوں کے باعث قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں بھارت نے بر صغیر کی مسلم آبادی کی اکثریت والی سب سے بڑی ریاست پر طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کر لیا_ پاکستان اگر چہ اپنے قیام کے وقت مسائلستان کی حیثیت اختیار کر چکا تھا مگر قائد اعظم کی ولولہ انگریز اور دیانت داری سے لبریز قیادت کے باعث پاکستان کے عوام دِلوں میں اسلامی ریاست کی اُمید جگائے ہر قِسم کے مسائل کے حل کے لئے نبرد آزما تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر چہ مسائل میں اضافہ ہو رہا تھا مگر قائد اعظم کی مدبرانہ قیادت کے باعث مایوسی کے بادل چھٹنے لگے تھے_ قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کی سیاست کا مخور اقتدار کی سیاست نہیں بلکہ نظریاتی سیاست تھا_ اُن دنوں جب مُلک مالی مشکلات میں گِھرا ہوا تھا_ آئی ایم ایف اور کئی دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے پاکستان کو منہ مانگے بھاری قرضوں کی پیشکش کی مگر قائد اعظم نے ان قرضوں کو لینے سے انکار کر دیا_ قائد اعظم قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے_ اُن کی وفات کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے مُلکی سیاست کی باگ ڈور سنبھالی وہ محب وطن، دیانتدار اور ذہین سیاستدان تو تھے مگر اُن کا مسلم لیگ میں قائد اعظم کی طرح کا دبدبہ اور رعب نہ تھا جس کے نتیجے میں اقتدار کے بھوکے کئی مسلم لیگی لیڈرز نے نظریاتی سیاست کی بجائے اقتدار کی سیاست کو اپنا نصب العین بنا لیا_ لیاقت علی خان نے صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کی تو فصلی بٹیرے سیاستدانوں نے نئی سیاسی جماعتیں اور سیاسی گروپس بنا کر مسلم لیگ کو کمزور کرنے اور بلیک میلنگ کی سیاست شروع کر دی_ اُن دنوں لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کر کے برابری کی سطح پر امریکہ سے تعلقات استوار کرنے کی بات کی کہ روس نے بھی لیاقت علی خان کو روس کے دورے کی دعوت دے دی_ لیاقت علی خان بلاک کی سیاست کرنے کی بجائے غیر جانبدارانہ سطح پر سیاست کے حامی تھے یہ بات امریکہ کو بالکل نہیں بھاتی تھی_ امریکہ نے لیاقت علی خان کو روس کے دورے سے روکنے کی حتی المقدور کوشش کی مگر لیاقت علی خان نے امریکی بلاک میں رہ کر سیاست کرنے پر آمادگی ظاہر نہ کی جس پر امریکہ بہادر خوش نہ تھا 1951 میں راولپنڈی میں لیاقت علی خان ایک جلسہ عام میں خطاب کر رہے تھے کہ ایک شقی القلب افغانی پٹھان سید اکبر نے انھیں سٹیج پر گولی مار کر شہید کردیا_ حیران کن امر یہ ہے کہ سیکورٹی انتظامات ناقص اور درست نہ کرنے والے سیاستدانوں اور پولیس افسروں کو ترقیاں اور انعامیہ عہدے دئیے گئے_ جس قتل کی اس واردات بارے کئی شکوک سامنے آئے لیاقت علی خان قتل کیس کی تفتیش ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ کر رہے تھے جو ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے اور قتل کی تفتیشی فائل بھی ہمیشہ کے لئے غائب ہو گئی اور قتل کے محرکات ہمیشہ کے لئے گمنامی کے پردے میں جاچکے ہیں_ کسی بھی معاشرے کا سب سے بڑا ناسور کرپشن ہے کرپشن دہشت گردی سے بھی بڑا ناسور ہے حال ہی میں نیب کے چیئرمین نے بھی ملک میں کرپشن کو دہشت گردی سے بڑا نا سور قرار دیا ہے_ مُلک کے قیام کے وقت تمام بڑی ملیں، تجارتی ادارے اور کاروباری مراکز بھارت کے حصے میں آگئے_ پاکستان میں روزِاول سے بیروزگاری کے سنگین مسائل درپیش تھے جو حل ہونے کی بجائے ہندو بنئیے کی ناانصافیوں کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین تر ہوتا چلا گیا_ سیاسی لیڈروں کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی بھی مُلک کے مسائل حل کرنے کی بجائے عیش و عشرت کے اللے تللوں میں مشغول تھی امن عامہ کی حالت بھی تسلی بخش اور خوشگوار نہ تھی_ میرٹ نام کی کوئی چیز دکھائی نہ دیتی تھی_ بااثر اور حکمران سیاستدان صرف اپنے خاندانوں اور جٹوں بٹوں کو نوازنے میں لگے ہوئے تھے_ غریب اور قابل نوجوانوں کو ہر میدان میں دھتکار دیا جا رہا تھا جس کا نتیجہ یہ بھی تھا کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا عزم رکھنے والے نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی تھی_ انہی دنوں پنجاب اور ملک کے کئی دوسرے علاقوں میں ” احمدیت” (قادیانی) کے مسئلے کو ہوا دی گئی جس سے امن عامہ کی صورتحال بڑی گھمبیر ہو گئی اور لاہور میں مارشل لاء لگانا پڑا متعدد مزہبی راہنماؤں مولانا مودودی، مولانا عبدالستار خان نیازی وغیرہ کو گرفتار کر کے اُن پر مقدمات چلائے گئے اور اِن دونوں راہنماؤں کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا تاہم بعد میں دونوں راہنما بری ہوگئے تاہم ملک میں مزہبی بے چینی اور اور مذہبی تنازعات میں اضافہ ہونے لگا_ اقتدار کے بھوکے سیاستدان صورتحال کو خوشگوار اور پر امن بنانے کی بجائے سازشوں میں مصروف تھے_ اِن حالات میں نہ تو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے پاکستان میں دلچسپی لے رہے تھے اور نہ ہی ملکی سرمایہ دار ملکی صنعتی ترقی میں دلچسپی رکھتے تھے_ ان ملکی مسائل کے باعث حکومت کی کشمیر کے مسئلہ پر توجہ نہ ہونے کے برابر تھی_ بھارت کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا تھا_ پاکستان صرف بھارتی مظالم کی کارروائیوں کی مزمت کی حد تک بس بیان داغ رہا تھا_ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک صنعتی اور تجارتی ترقی کے بغیر نہ تو ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی بیروزگاری کا مسئلہ حل کرسکتاہے_ پاکستان میں نہ تو صنعتی اور تجارتی کی طرف توجہ دی جارہی تھی اور نہ ہی دوررس طویل مدتی معاشی منصوبے بنائے جارہے تھے_ مُلک میں جمہوریت کا کوئی نظام حکومت نہ تھا_ 1958 میں ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا مُلک میں مہاجرین کی آبادکاری کا دیرینہ مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ ہو رہا تھا تاہم مارشل لاء حکومت کے وزیر بحالیات لیفٹیننٹ جنرل محمد اعظم خان نے دن رات کی محنت سے یہ مسئلہ حل کر دیا_ اب ایوب حکومت نے ملک کی صنعتی ترقی کی طرف توجہ دی مگر یہ ترقی قرضوں کی رقم کی مرہونِ مند تھی_ صنعتیں عالمی مالیاتی اداروں اور غیرممالک سے قرضے لے کر لگائی جارہی تھیں_ عالمی مالیاتی ادارے زیادہ تر امریکہ کے زیر اثر تھے غیر ملکوں میں سے سب سے زیادہ قرضہ بھی امریکہ نے دیا جس کے نتیجے میں ہمارا ملک امریکی بلاگ میں شامل ہو کر امریکہ کی منشا کے مطابق سیاست کرنے لگا_ امریکی بلاک میں شامل ہونے کے باعث روس ہمارے ملک سے ناراض رہنے لگا_ ایک موقع پر روس نے پشاور سے اُڑنے والے جاسوس امریکی طیارے یو ٹو کو مار گرایا تو روسی وزیر اعظم نے پاکستان کو حملے کی دھمکی دے دی_ ایوب دور میں پاکستان نے صنعتی ترقی تو کی ڈیم بھی تعمیر کئے گئے مگر خارجہ پالیسی امریکہ کے زیر اثر انتہائی کمزور تھی جس کے نتیجے میں کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو سکا_ حالانکہ جب چین نے بھارت سے جنگ میں کچھ بھارتی علاقے پر قبضہ کر لیا اور سینکڑوں بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا یا قیدی بنا لیا تو پاکستان اپنی مضبوط خارجہ پالیسی کے باعث امریکہ کی مدد سے کشمیر کا مسئلہ حل کرسکتا تھا یہ مسئلہ یو این او کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد کہ کشمیر میں استصواب کرایا جائے کے کلیے سے ہوسکتا تھا_ پاکستان اور بھارت دونوں نے سلامتی کونسل میں استصواب کی قرارداد پر رضامندی پر دستخط کئے تھے_ مگر آج 70 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے کہ اس قرارداد پر عمل نہیں ہو سکا اور اب تو بھارت نے کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرنے کی بجائے اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا ہے اور کشمیر کو کُلی طور پر اپنی عملداری میں شامل کر لیا ہے_ ایوب دور میں صنعتی اور معاشی ترقی تو ہوئی اگر چہ قرضوں کی رقم کی بدولت تھی مگر جمہوریت اور جمہوری عمل کو عوام سے دور رکھا گیا_ اور پھر جب عوامی احتجاج کے باعث ایوب خان نے حکومت سے استعفیٰ دیا تو مُلک کی باگ ڈور کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کو سونپ دی جس کی احمقانہ اور عیاشی کی پالیسیوں کے باعث مُلک ہی دو لخت ہو گیا_ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا_ ذوالفقار علی بھٹو سوشلسٹ نظام کے بڑے حامی تھے انھوں نے مُلک کی تمام صنعتوں اور تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا_ قومی ملکیت میں لینے کے بعد ان اداروں کی جو بندر بانٹ ہوئی اور جس طرح پارٹی کے نااہل کارکنوں کو نواز گیا اُس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور مُلک ایک بار پھر پسماندگی کی گہرائیوں میں ڈوب گیا_ مُلک کی کرنسی کو بھی بڑا دھچکا لگا چنانچہ پاکستانی کرنسی ڈی ویلیو ہو گئی_ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا کر مارشل لاء لگا دیا_ وہ انتخابات پر یقین نہیں رکھتے تھے انھوں نے اسلام کے نام پر مُلک کو آمریت کے تابع کر دیا اور محب وطن سیاسی کارکنوں کو سر عام کوڑے مارے_ قیام پاکستان سے لے کر اب تک مُلک میں بیروزگاری، مہنگائی، کرپشن، لاقانونیت اور دہشت گردی کے مسائل تو حل نہیں ہو سکے البتہ ملک جاگیر داروں، سیاستدان، بیوروکریٹس اور حکمرانوں کی لوٹ مار کی فیورٹ آماجگاہ بنا رہا_ ان لوگوں نے تو امریکہ، یورپ اور دبئی میں اربوں روپے کی پراپرٹیز بنالیں اُن کے بنک بیلنس تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہے مگر غریب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غریب تر ہوتا گیا اور آج دو وقت کی روٹی کمانے سے بھی پریشان ہے_ قائد اعظم اور لیاقت علی خان نے تو بر صغیر کے مسلمانوں سے کہا تھا کہ پاکستان میں اسلامی نظام ہوگا ہم اسے اسلام کا قلعہ بنا دیں گے مگر یہ کیسا پاکستان جہاں ساری سہولتیں صرف اشرافیہ کے لئے غریب کی تو ضروریات زندگی تک رسائی نہیں اُس کے بچے کو تو نہ اچھے سکول میں داخلہ ملتا ہے بیماری کی شکل میں اُسے ہسپتال میں بیڈ میسر نہیں ہوتا_ کیا یہ اسلامی نظام ہے؟ اگر یہ اسلامی نظام ہے تو ظلم کا نظام کیا ہوتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button