کالم

ہزار خوف ہو

حسب منشا /منشا قاضی

میں جس قبیلہ ءقلم و قرطاس سے تعلق رکھتا ہوں وہ لوگ فاقوں سے نہیں باتوں سے مر جاتے ہیں۔ میں نے زندگی کو سنوارنا چاہا وہ الجھتی چلی گئی ۔ زندگی اور دنیا کا فلسفہ آج ایک علمی نشست میں ہوا اور معلوم ہوا کہ
زندگی خواہ مختصر ہو جائے
مگر سلیقے سے بسر ہو جائے
ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی سیکرٹری جنرل جناب محمد ناصر اقبال خان کی خواہش ہوتی ہے جہاں کہیں کوئی نابغہ ءروزگار شخصیت سے ملاقات ہو تو وہ ایک فقیر بے نوا کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔اس علمی نشست کے خصوصی مقرر سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈجناب میاں ثاقب نثار تھے جن کے دفتر میں خوبصورت کتب خانے میں یہ نشست منعقد ہوئی۔ لارڈ میکالے کا کہنا ہے کہ اگر روئے زمین کی بادشاہت مجھے دے دی جائے اور میرا کتب خانہ مجھ سے لے لیا جائے تو میں اس پر ہر گز رضا مند نہ ہو سکوں گا۔ میں ممنون احسان ہوں ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی سیکرٹری جنرل جناب محمد ناصر اقبال خان کا جنہوں نے خوبصورت خیالات کا اظہار کرنے والے عظیم المرتبت انسان کی فکری رعنائی خیال کی آبشار نور سے مستفید کیا۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کی کارکردگی کا حسن ماحول میں چاندنی بکھیر رہا تھا۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی سیکرٹری جنرل جناب محمد ناصر اقبال خان نے نقابت کے فرائض ادا کرتے ہوئے تلاوت قرآن پاک کی سعادت محترم غلام اسحاق جیلانی کو عطاءکی اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورہدیہ ءنعت بھی پیش کیا۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی صدر جناب مظہر برلاس اسلام آباد سے مہمان خصوصی جبکہ مرکزی وائس چیئرمین ڈاکٹر شوکت بابر ورک مہمان گرامی کے طور پر جلوہ افروز تھے۔ جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے زندگی اور دنیا دونوں کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کیا۔ آپ نے پوری کائنات کے بارے میں بتایا کہ یہ کائنات لفظ کن سے معرض وجود میں آئی ہے اور لفظ ہی کی قوت سے ہم اپنی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔ کسی دانشور نے کہا تھا کہ زندگی دس گیئر والی گاڑی جیسی ہوتی ہے ہم میں سے بہت سے لوگ کچھ گئیر زندگی بھر استعمال ہی نہیں کر پاتے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے زندگی، دنیا اور دماغ کے بارے میں حیرت انگیز معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کی مالا میں ایسے انمول موتی جمع کریں جن کی چمک سے سارے جہاں میں روشنی پھیل جائے۔ زندگی آپ کی نہیں اس میں کچھ دوسروں کا بھی حصہ ہے۔ آپ نے عورت اور مرد دونوں کے حقوق و فرائض کی بڑی خوبصورتی سے تمثیلیں پیش کیں۔ زندگی ایسی گزاریں جس میں خلوص کی چاندنی، محبت کی فراوانی اور احساس کی شدت بدرجہ اتم موجود ہو۔ اگر آپ تا ابد زندہ رہنا چاہتے ہیں تو میرے پاس ایک نسخہ موجود ہے اس پر عمل کر کے آپ تاابد زندہ رہ سکتے ہیں اور اسی روز مجھے بھی غالب کے اس شعر کی سمجھ آئی کہ
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے دن ہوں پچاس ہزار
میں کہتا تھا غالب دعا دے رہا ہے یا بد دعا دے رہا ہے کہ ہزار سال زندہ کون رہتا ہے مگر جب میری نظر سے کسی دانشور کا یہ قول گزرا تو میں نے غالب کے اس شعر کو حرزِ جاں بنا لیا ہے۔ زندگی قوم کیلئے وقف کر دو ہمیشہ زندہ رہو گے۔ عبدالستار ایدھی کو کون مار سکتا ہے وہ صبح قیامت تک زندہ ہیں۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی زندگی قوم کیلئے وقف کرنے کا تجربہ کیا تھا۔ مگر ہم قوم نہیں ہیں ہم عوام کا ہجوم ہیں اور میں تو اس ہجوم میں نجوم تلاش کر لیتا ہوں جن کی چمک دمک ظلمتوں میں اجالا کر دیتی ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے پوری دنیا اور زندگی کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی اور یہ حقیقت ہے کہ زمین پر انسان اور انسان میں دماغ سے زیادہ اور کوئی چیز حیرت انگیز نہیں اور دماغی حسن کا مقابلہ دنیا کا کوئی حسن نہیں کر سکتا۔ جان ملٹن نے سچ ہی تو کہا تھا کہ دماغ چاہے تو جنت کو دوزخ اور دوزخ کو جنت میں تبدیل کر سکتا ہے۔ دماغ واقعی انسانی آسمان ہے اور یہ دماغ ہماری وسیع سلطنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ پوری کائنات توازن پر تخلیق کی ہے۔ اس خالق حقیقی نے انسان کی بھی تخلیق فطرت پر کی ہے۔ اگر ہم بڑی دنیا یا چھوٹی دنیا کا توازن بگاڑتے ہیں تو اس کا بگاڑ حضرت انسان کے حصے میں آئے گا۔ ماحول کی آلودگی اور فضا کی پراگندگی کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ہماری چھوٹی دنیا میں وہ سب کچھ موجود ہے جو بڑی دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ عناصر اربعہ کا جب توازن بگڑتا ہے تو جسم میں زلزلے آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ باد نار آب اور تراب کا توازن بگڑتا نہیں۔ ادھر انسانی زندگی معرض خطر میں پڑ جاتی ہے۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزاءکا پریشاں ہونا
بڑی خوبصورت منظر نامہ پیش کرتے ہوئے جسٹس جناب میاں ثاقب نثار نے زندگی کی حقیقت بیان کی اور بولنے اور سمجھنے میں فرق ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ لوگ بول رہے ہیں اور ان کی کوئی سن نہیں رہا۔ اگر وہ سمجھا رہے ہوں تو لوگوں کا ایک جم غفیر ہمہ تن گوش ہو جائے گا۔ دو گھنٹے کی اس علمی نشست میں معلومات فراہم کرنے والے چیف جسٹس (ر)جناب میاں ثاقب نثار نے زندگی کے ہر شعبے کے مسائل و مصائب بیان فرمائے۔ آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز جہاں سے کیا اس کا اظہار آپ نے کر کے بڑے انسان ہونے کا ثبوت دیا۔ آپ نے کہا کہ میں نے وکالت ایک تھڑے سے شروع کی اور بڑے دھڑلے سے دلائل و براہین کی قوت سے یادگار، شاندار اور مو¿ثر ترین کارنامے سر انجام دیئے۔ میں نے تاریخ میں جتنے عظیم المرتبت انسانوں کے بارے میں پڑھا ہے وہ مصائب و آلام کی گود میں پلتے ہیں۔ بیابانوں میں آبلے لے کر چلتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے باغبانی کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ ان ہی لوگوں میں جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کا نام بھی آتا ہے۔ کچھ شخصیات اخبار میں زندہ رہتی ہیں ان کا شمار مشتہرین میں ہوتا ہے اور کچھ شخصیات تاریخ کے رخ تاباں پر کہکشاں کی مسجع عبارتوں کی طرح جگمگاتی رہتی ہیں ان کا شمار مشاھیر میں ہوتا ہے اور یہ فیصلہ مو¿رخ کرے گا۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے حضرات نے سوال وجواب میں حصہ لیا اور اظہار خیال کیا ان میں ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی صدر مظہر برلاس اورمرکزی وائس چیئرمین ڈاکٹر شوکت بابر ورک پورے اخلاص سے سٹیج پر براجمان تھے۔ مرکزی سیکرٹری جنرل محمد ناصر اقبال خان کی نقابت میں اختصار کا اظہار تھا۔ مرکزی آرگنائزر جناب عرفان اطہر قاضی،مرکزی سینئرنائب صدر ناصف اعوان ،مرکزی نائب صدور محمد اویس رازی، اسحاق جیلانی، غضنفر اعوان، مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل مظہر چوہدری، مرکزی صدر وویمن ونگ ڈاکٹر نبیلہ طارق، سینئر کالم نگار میاں حبیب، سینئر کالم نگار فیصل ادریس بٹ، سینئر کالم نگار اعجاز حفیظ خان، سینئر کالم نگار فرزانہ چوہدری اور راقم الحروف بھی اپنے سینئر کالم نگاروں کے درمیان موجود تھا۔ میں اس دانائے راز غالب سے ا سلئے ناراض ہوں کہ اس نے ایک شعر میں چیرہ دستی کا ذکر کیا ہے اور میں محبت میں حریفانہ کشاکش کا مخالف ہوں۔
عجز و نیاز تو وہ نہ آیا راہ پر
دامن کے اس کے آج حریفانہ کھینچئے
اسحاق جیلانی نے بڑی بے ساختگی سے سوال کا آغاز کیا اور بڑی چابک دستی سے سوال کی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار کی توجہ ڈیم فنڈ اور اس کی تعمیر کی طرف دلاتے ہوئے پوچھا کہ ڈیم کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کارکردگی کا گراف کہاں پر انجام پذیر ہوا تھا۔ اسحاق جیلانی نے ورلڈ کالمسٹ کلب کے تمام ممبران کی ترجمانی کی اور جسٹس میاں ثاقب نثار نے سب کی تشفی کرا دی اور دس ارب روپے کا فنڈ جو اس وقت 17 ارب روپے تک چلا گیا ہے وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ آپ نے ڈیم فنڈ کی وضاحت سے قبل تین چار تاریخ ساز اپنے فیصلوں کے بارے میں بھی بتایا کہ جرا¿ت مندانہ فیصلوں کے عقب میں والدہ مرحومہ کی تربیت اور پرورش کار فرما ہے۔واقعی ماں ہی وہ عظیم المرتبت ہستی ہے جو بیٹے کو کردار کی پختگی اور اطوار کے دلکشا تیور عطاءکرتی ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے انصاف سے زیادہ عدل میں نام پیدا کیا ہے۔ انصاف کرنا آسان ہوتا ہے ۔ دس فٹ لمبی لکڑی کو نصف کر کے دو فریقوں کو دینا انصاف ہے اور عدل یہ ہے کہ فریقین کی ضرورت کو مد نظر رکھا جائے۔محمد ناصر اقبال خان کی ضرورت 8 فٹ ہے اور محمداویس رازی کی ضرورت دو فٹ ہے۔ وہاں منصف کی نہیں عادل کی ضرورت ہے اور جسٹس میاں ثاقب نثار نے عادل کی حیثیت سے جو فیصلے کئے ہیں ان کو سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔اور بڑی جرا¿ت سے یہ فیصلے کئے گئے ہیں جو منصف نے نہیں عادل نے کئے ہیں اور یہ جرا¿ت کہاں سے ملتی ماں کے دودھ سے اور ماں کی تربیت اور فیض کی نظر سے ملتی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر جو تاریخ میں علی برادران کے نام سے مشہور ہیں ان کی والدہ محترمہ اماں بی کو بتایا گیا کہ تمہارے دونوں بیٹے کسی معذرت نامے پر دستخط کر کے رہائی کا پیمانہ حاصل کر رہے ہیں اسی وقت اماں بی نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا کہ قبل اس کے کہ تم کسی معذرت نامے پر دستخط کرنے کا ارادہ کرو امیں اپنے بوڑھے ہاتھوں سے تم دونوں کے گلے گھونٹ دوں گی۔ ممتاز کالم نگار میاں حبیب نے بھی اپنے سوال کا تسلی بخش جواب وصول کیا۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے مرکزی صدر مظہر برلاس نے بھی اپنی تقریر میں جسٹس میاں ثاقب نثار کی کارکردگی کے حسن پر اپنے خیالات و جذبات نثار کرتے ہوئے عدلیہ سے سریع الحرکت فیصلوں کی توقع ظاہر کی۔ یہاں مجھے بڑی مسرت محسوس ہوئی کہ میرے ہمدم دیرینہ جناب سعید اے ملک سے ملاقات ہو گئی۔
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
بیرسٹر میاں نجم الثاقب اور ایم آصف الیاس کی فرض شناسی کی بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے وکلا کی پوری ٹیم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ جو ایک عادل رہنما ءکی دورس نگاہ کے اعجاز، ان کی خوئے دلنوازی اور جرا¿ت رندانہ سے متاثر ہیں ۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ایسے بیباک اور نڈر عبقری شخصیات کے بارے میں ہی تو کہا تھا۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button