کالم

عوام پر بجلی کا ایٹم بم گرا دیا گیا

تحریر ::اصغر علی انجم لاہور

حکومت کی طرف سے عوام پر بجلی کا ایٹم بم گرا دیا گیاہےاور پہلے سے مہنگی بجلی کی قیمتوں میں ساڑھے سات روپے فی یونٹ کا اضافہ کر دیاگیاہے ۔ ان مہنگے نرخوں پر 18 فیصد جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسز الگ سے لاگوہوں گے۔واضح رہے کہ پی ڈی ایم حکومت گزشتہ مالی سال میں 3 دفعہ بجلی کےنرخ بڑھا چکی ہے۔یوں حالیہ اضافہ سے مہنگائی کے پسے عوام پر زندگی اور مشکل بنا دی گئی ہے اور عوام جی بھر کر حکومت کو برا بھلا کہ رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایسا آ ئی ا یم ایف کے کہنے پر کیا گیا اور اس کا مقصد سرکلر ڈیٹ کو بڑھنے سے روکنا ہے سوال یہ ہے کہ سرکلر ڈیٹ میں کمی کے ممکنہ متبادل اقدامات پر کیوں نہ عمل کیا گیا جن میں سے چند حسب ذیل ہیں۔
.1 بجلی چوری پر قا بو پا نا۔ واضح رہے کہ اس وقت بہت ساری ڈسکوز میں بجلی چوری عام ہے۔جس میں اکثراوقات ڈسکوز افسران اور عملہ کی ملی بھگت بھی شامل ہوتی ہے۔
.2 اوور بلنگ کو سختی سے کنٹرول کرنا تاکہ لوگوں کو صحیح بل وصول ہوں اور ان کی بر وقت ادائیگی کریں۔ اس وقت بد قسمتی سے اوور بلنگ کی شکایات ہر ڈسکو بالخصوص لیسکو میں بہت زیادہ ہیں۔ جسکا شکار ٹیوب ویل، چھوٹے صنعتی اور تجارتی صارفین اور سرکاری کنکشن ہوتے ہیں(اسکا ثبوت متعلقہ سرکل کے ان صارفین کے بلنگ لوڈ فیکٹر اور ریکوری پوزیشن ہے)۔
.3 ایف بی آر کی جانب سےٹیکسز کی کلیکشن کی بجائے بلنگ کی بنیاد پر ریکوری حالاں کہ ڈسکوز کو ٹیکسز کی مد میں پوری وصولی نہیں ہوتی اور بہت ساری رقم عدالتی کاروائیوں کی وجہ سے معرض التوا میں چلی جاتی ہے۔ اس وقت اربوں روپے کی رقم مقدمات کی وجہ سے زیرالتوا ہے۔ لیکن ایف بی آر اس میں سے اپنا ٹیکس وصول کر چکاہے۔
.4 عدالتوں کی طرف سے صنعتی صارفین کے لیے بلاجواز سٹے آرڈر دےدینا جبکہ ان میں سے اکثر امور پر حکومت پاکستان اور نیپراکے قانونی طور پر طے شدہ فیصلےموجود ہیں۔
.5 بعض ڈسکوز مثلاََحیسکو، سیپکو، پیسکو،کیسکووغیرہ سے واجبات کی کم وصولی کو صوبائی این ایف سی ایوارڈ شیئرسے منسلک کرنا۔ تاکہ وہاں بجلی کی فراہمی کا بل پنجاب کے صارفین پر نہ ڈالا جائے جو پہلے ہی مہنگی بجلی کے بوجھ تلے دبے ہیں۔
.6 حکومت کی طرف سےہر شعبہ زندگی میں بچت اور مراعات میں کمی کا نفاذ۔اس وقت معاملات اس کے برعکس ہیں۔ ایک طرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تفاوت بہت بڑھ چکاہے۔(طاقتور محکمے اپنے ملازمین کو سرکاری سکیل کے علاوہ خطیر مراعات مثلاََ جوڈیشل الاوئنس، ایگزیکٹو الاونس، پارلیمنٹ الاونس، ایف بی آر الاونس و غیرہ سے نواز رہے ہیں)۔جس سے ان میں شدید بےچینی پائی جاتی ہے۔دوسری طرف بیوروکریسی کے لئے اربوں روپے سے جدید گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں اور عوام پر آئی ایم ایف کا قرضہ چڑھایا جا رہا ہے۔
.7 وفاقی حکومت کو چاہیے تھا کہ پہلے مذکورہ بالا اقدامات(1تا6) اٹھائے جاتے اورپھر کسی کمی کی صورت میں تھوڑا بہت ناگزیر اضافہ کر لیا جاتا۔ لیکن اس صورت میں بھی لازمی تھا کہ بجلی کے بلوں میں جی ایس ٹی کی شرح میں کمی لائی جاتی تاکہ عوام پر بوجھ اتنا ہی پڑتا جتنا سرکلر ڈیٹ میں کمی کیلیے ضروری ہوتا۔ لیکن اب تو بجلی کے نرخوں میں بےتحاشہ اضافہ اور اوپر سے 18 فیصد جی ایس ٹی ومذیدٹیکسز نا صرف عام آدمی کی زندگی کو مشکل ترین بنا دیں گے۔ بلکہ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کو بھی شدید دھچکہ لگے گا۔جس سے معاشی ترقی کے اھداف حاصل کرنا ممکن نہیں رہے گا بلکہ بجلی کی طلب میں نمایاںکمی کا امکان ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اب بھی ہوش کے ناخن لے اور اس غیر دانشمندانہ فیصلے کو واپس لے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button