کالم

نظریہ نہیں اقتدار!

تحریر: علی بیگ

حضرت عمر فاروق نے اپنے دورِ خلافت میں ایک روز فرمایا کہ اگر فرات کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے روز عمر اس کے لئے بھی اللہ کے سامنے جوابدہ ہوگا_ اللہ کے حضور حضرت عمر کو احتساب کا کتنا ڈر اور خیال تھا کہ رات کے اندھیرے میں گھر آرام کی بجائے مدینہ کی گلیوں میں عوام کے حالات جاننے کے لئے خود چکر لگاتے وہ واقعہ تو سب کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ ایک رات ایک گلی میں چکر لگاتے ہوئے انہیں ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز سنائی دی رونے کی آواز سن کر کر بے قرار ہوۓ گھر کے بیرونی دروازے پر دستک دی اندر سے ایک خاتون آئی اور دروازہ کھول کر حضرت عمر سے دروازے پر دستک دینے کی وجہ دریافت کی حضرت عمر نے بچوں کے رونے کی وجہ دریافت کی تو خاتون کی آنکھوں میں آنسو آگۓ اور بھرائی آواز میں بولی کہ بچے صبح سے بھوکے ہیں گھر میں کھانے کو کچھ نہیں اور وہ بھوک کی شدت سے رو رہے ہیں یہ سن کر حضرت عمر کی آنکھوں میں بھی آنسو آگۓ بولے خاتون دروازہ بند کر لو میں ابھی ان کے لئے کھانے کا بندوبست کر کے آتا ہوں_ تھوڑی دیر بعد وہ آٹے کی بوری اپنی کمر پر اٹھائے دوبارہ گھر کے دروازے پر تھے دستک دی خاتون نے دروازہ کھولا تو کہا یہ آٹے کی بوری ہے جوں کی روٹی بنا کر دو_ خاتون آٹا گوندھنے لگی اور پھر روٹیاں پکنے لگیں وہ اُس وقت تک گھر کے صحن میں کھڑے رہے جب تک بچوں نے پیٹ بھر کر روٹی نہ کھالی_ اُنہوں نے اس عامہ کے لئے پولیس کا محکمہ قائم کیا جرائم پیشہ لوگوں کے لئے جیلیں بنائیں اُن کے دور میں اسلامی فتوحات کا یہ عالم تھا کہ تمام بڑی سلطنتیں اسلامی حکومت کے زیر آگئیں یہ وہ دور تھا کہ مال تقسیم کرنے والے زیادہ اور لینے والے کم تھے_ اُن کے انصاف کا یہ عالم تھا کہ اپنے پراۓ میں کوئی تمیز نہ تھی بلکہ صرف سچائی کا بول بالا تھا_ اللہ اور اُس کے پیارے رسول کے فرمودات کا نتیجہ تھا کہ ہر شخص کا اپنے کا اپنے ہمسائے سے ماں جائے کا سا رشتہ تھا_ کوئی فرد اُس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک وہ اطمینان نہ کرلیتا اُس کا ہمسایہ بھوکے پیٹ تو نہیں سویا ہوا_ آج حکمرانوں اور متمول افراد کو کون سا سانپ سونگھ گیا ہے کہ حکمرانوں کے پاس صرف با اثر سیاست دانوں کے وفود کے لئے تو ملاقات کا گھنٹوں وقت موجود ہے مگر غریب اور لاچار لوگوں کے حالات جاننے کے لئے اُن کے پاس چند لمحات کا بھی وقت نہیں_ ویسے آج کے دور میں ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے حکمرانوں کو ملکی حالات کی پل پل کی خبرمل جاتی ہے کیا حکمرانوں اور ذمہ داروں کو نہیں معلوم کہ آٹا، چینی، گھی، سبزیوں اور دالوں کا کیا بھاؤ ہے بے روزگاری کا عفریت کس تیزی سے محنت کش اور مزدور طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے حکمران طبقہ کبھی کبھار اپنی تشہیر کے لئے آٹا، چینی تقسیم کرتا ہے تو صرف ویڈیو اور تصاویر اور اخبارات میں دکھانے کے لئے _ انسانی حقوق اور حقوق العباد سے تو حضرت عمر کو استثنی نہیں پھر ہمارے یہ حکمران کیوں اتراتے پھرتے ہیں کہ انہیں الیکشن اور ووٹوں کے علاوہ اور کسی چیز کی فکر نہیں! حکمرانوں! یاد رکھو خدا کے گھر دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں ہے

حکمرانوں! تم نے 25 کروڑ غریب عوام کے نام پر غیر ملکوں اور غیر ملکی مالیاتی اداروں سے 30 ارب روپے کے بھاری سود پر قرض لے رکھے ہیں کیا ملک کا ایک بھی ترقیاتی منصوبہ ہے جو ہم نے اپنے وسائل سے مکمل کیا ہو_ ہر منصوبہ سود پر قرض لی گئی رقم سے مکمل کیا ہے_ ہماری حکومتیں قرض اربوں ڈالر کا لیتی ہیں اور منصوبہ چند کروڑوں ڈالر کا ہوتا ہے_ کروڑوں ڈالر کدھر جاتے ہیں؟ غریب دن بدن غریب ہو رہا ہے اور حکومتی نمایندے امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں_ حکومتی ارکان کی 6 سے 60 فیکٹریاں ہو گئی ہیں غریب کا بچہ پیدا ہوتے ہی لاکھوں روپے کا مقروض ہوتا ہے یہ ہے ہماری ترقی کا زینہ_ حکومتی ارکان غریب کے گھر ہر 5 سال بعد جاتے ہیں وہ بھی صرف اقتدار کی خاطر ووٹ لینے کے لئے انہیں ان بچوں کی غربت، تعلیم، صحت، بے روزگاری اور مہنگائی سے کوئی سروکار نہیں_ ملک میں مہنگائی کا کیا حال ہے انہیں اس سے کیا مطلب؟ انہوں نے اپنے پیارے سیاست دانوں کو سیاسی رشوت کے طور پر پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کے نام سے ایک فوج قائم کر رکھی ہے اُنہیں توگھر بیٹھے مفت سبزیاں اور پھل مل جاتے ہیں اُنہیں کیا کہ سبزیاں اور پھل مہنگے ہوں یا نہ! اُن کا اُلو تو سیدھا ہے_ حال ہی میں جب آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ مُلکی سرکاری اخراجات کم کرنے کے لئے کابینہ مختصر کرو اور خصوصی معاونین کے لیے ایک وفد نے وزیراعظم سے استدعا کی کہ وہ تنخواہ کے بغیر کام کرنے کو تیار ہیں وہ سرکاری گاڑیاں اور سرکاری رہائش گاہیں بھی نہیں لیں گے مگر اُنہیں خصوصی معاونین کے عہدے پر برقرار رکھا جائے_ مقصد کیا تھا کہ کرپشن کے لئے تو صرف بڑا سرکاری عہدہ کا ہونا ہی کافی ہے_ صدقے جاؤں وزیراعظم کے اُنہوں نے بھی خصوصی معاونین کی مجبوری اور دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھا اور اُنہیں اُن کے عہدوں پر برقرار رکھا اور اِن خصوصی معاونین نے قوم کی جو خدمت کی اس کے عوض اُنہیں غیبی امداد ملتی رہی اور اُن کی جائدادوں نے دن دُگنی اور رات چگنی ترقی کی_ ہمارے مُلک میں جب کوئی صدر، وزیراعظم، وفاقی یا صوبائی وزیر بنتا ہے تو اُن کے بیٹے، بھائی اور دوسرے قریبی رشتہ دار بھی خم ٹھوک کر کمائی کے میدان میں آجاتے ہیں اور پھر ھزا من فضل ربی کی اُن پر برسات ہو جاتی ہے_ انہیں بھی سیکرٹری، کوآرڈینیٹر اور نا جانے کون کون سے عہدے دے دیے جاتے ہیں اُنہیں سیاسی پارٹی میں بھی عہدہ مل جاتا ہے_ حکمرانوں کا یہ طرز حکومت جلد ہی مُلک میں خودکشیوں کا ایسا انقلاب لاۓگا کہ غریب یا تو خودکشی کرلے گا یا جرائم میں ملوث ہو کر جیل چلا جاۓ گا یوں ملک غریب فری مُلک بن جائے گا_

ماہرین معاشیات اور مفکر کارل مارکس، سقراط، بقراط اور ارسطو غربت مکاؤ نظام کی تھیوریاں پیش کرتے رہے مگر ہمارے حکمرانوں نے تو غریب مکاؤ کی اپنی تھیوری دے کر سقراط، بقراط کو بھی مات دے دی ہے_

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button