کالم

اسلام میں عورت کے حقوق

تحریر: ارفع رشید عاربی

زمانہ جاہلیت میں عورت کا مقام باعث شرم تھا۔عورت دنیا میں تمام مصائب کا سر چشمہ اور انتہائی قابلِ نفرت مخلوق سمجھی جاتی تھی۔ لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیا جاتا یا پھر گھر میں قید رکھا جاتاتھا۔
قرآن آیااور اس نے باطل کے اُن تمام عقائد پر خط ِتنسیخ کھینچ دیا اور کہا وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ (70/17 )
ترجمہ: "ہم نے تمام انسانوں کو یکساں واجب التکریم پیدا کیا ہے”
اس لیے پیدائش کے اعتبار سے کسی انسانی بچہ میں کسی قسم کی تفریق نہیں کی جا سکتی۔ اللہ نے جس تعظیم وتکریم کا حامل "انسان” کو ٹھہرایا ہے اس میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔
خواتین اور خصوصاً بیٹی کے اسلام میں حقوق کی بات کی جائے تو چند اہم نکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گی۔
1۔ بیٹی کا پہلا حق یہ ہے کہ اسے پیدا ہونے دیا جائے۔ بیٹی رحمت ہے۔اگر پہلا بیٹا ہونا فخر کی بات ہوتی تو یقین جانیں اللہ اپنے محبوب نبی حضرت محمد ؐ کو سب سے پہلے بیٹا عطا کرتا۔ لیکن حضور اکرمؐ کی پہلی چار بیٹیاں تھیں۔ اس لیے جب پیدا ہو جائے تو منہ نہ بسورو۔ دِل کے اندر ملال نہ لاؤ۔ دل میں جو خوشی اور مسرّت بیٹا پیدا ہونے پر ہو وہی بیٹی کی پیدائش پر بھی ہونی چاہیے۔ اکثر لوگ تو بیٹی کی پیدائش پربتاتے ہی نہیں کہ ان کے گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ قرآن کی آیات کا مفہوم ہے کہ تمھیں بیٹی کی خبر آئے تو منہ چھپائے پھرتے ہو۔چہرہ پریشان ہو جاتا ہے۔ تمھیں کیا ہو گیا ہے یہ تمھارے اختیار میں ہے ہی نہیں۔ جس ماں کے بطن سے وہ بچہ پیدا ہوا اس بیٹی کا کیا قصور ہے ؟ اس بچے کو اللہ نے بنایا ہے۔ جب اللہ اور اللہ کی رحمت کی طرف دھیان ہو تو پھر ایسی چیزیں دماغ میں نہیں آتیں۔
2۔ پیدائش کے بعد دوسرا حق ، حق ِرضاعت ہے۔۔ جتنا دودھ اور جیسا دودھ بیٹے کے لیے ماں پلاتی ہے، اتنا ہی بیٹی کے لیے بھی ہو۔بیٹے سے زیادہ بیٹی کا جسمانی طور پر تندرست ہونا ضروری ہے کیونکہ اس نے اگلی نسل کوپروان چڑھانا ہے۔وہ آج جتنی صحت مند بیٹی ہو گی کل اتنی ہی صحت مند ماں ہو گی۔
3۔تیسرا حق بیٹی کا تعلیم کا حق ہے۔ جس سوچ اور جذبے کے ساتھ بیٹے کی تعلیم وتربیت کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ تعلیم بیٹی کو دلوائیں۔ کیونکہ بیٹے نے پڑھ کر کمانا ہے، جبکہ بیٹی کی تعلیم ایک

پورے خاندان کی تعلیم ہے۔مرد اور عورت سب اکتسابِ رزق کر سکتے ہیں۔ اگر عورت پڑھی لکھی ہو گی تو آگے پڑھی لکھی نسل آئے گی۔ لہٰذا تعلیم و تربیت میں بیٹی پر زیادہ توجہ دیں،اور اس کو پورا حق دیں کہ وہ زندگی میں آگے بڑھے اور کامیابیاں حاصل کرے۔
4۔ اگلا حق ہے محبت کرنے کا حق کہ مائیں بیٹے کو گلے لگاتی ہیں پیار کرتی ہیں مگر بیٹی کی طرف دھیان کم ہوتا ہے۔ اگر ماں بیٹے کو بوسہ دیتے وقت محبت کا اظہار ذیادہ کرے اور بیٹی کے لیے کم کرے تو کل اللہ نے قیامت والے دن یہ نا انصافی بھی پوچھنی ہے۔
5۔ بیٹی کی تربیت اور اس کے نظریات کو واضح کرنے میں جن جن چیزوں کی ضرورت ہے اسے پورا کریں اور سمجھائیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ” جس نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی تربیت کی اور ان کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوا (یعنی اس کی شادی کر کے اس کے حق کومکمل کر دیا) اوراگر یہ سارا کام انصاف ،عدل ، محنت اور اخلاق کے ساتھ کیا ( نبی کریمؐ نے دو انگلیوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) قیامت والے دن وہ اور میں ایسے اکٹھے ہوں گے جیسے میرے ہاتھ کی یہ انگلیاں اکٹھی ہیں۔ ” یعنی بیٹی کی اچھی پرورش پر نبی پاکؐ کی خصوصی سنگت کی بشارت دی گئی ہے۔
6۔ بیٹی کا ایک اہم حق مہر کا حق ہے۔ یعنی شادی کے وقت بیٹی کے لیے جتنا بھی مہر طے ہوتا ہے وہ پورے کا پورا بیٹی کی ذاتی ملکیت ہے۔ اسے معاف نہیں کروایا جا سکتا۔بیٹیوں کو بھی حق مہر معاف نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ شادی کے وقت والدین جو کچھ دیتے ہیں وہ بھی بیٹی کی ذاتی ملکیت ہے۔ خدانخواستہ اگر علیحدگی ہو جائے تو لڑکی کو پورا حق حاصل ہےکہ وہ سب کچھ واپس لے سکتی ہے۔
7۔ اگلا اہم حق، حق ِکسب ہے۔ یعنی بیٹی کو کمانے کا بھی حق ہے۔ وہ اپنا کاروبار کر سکتی ہے۔پنا اکاؤنٹ کھول کر اپنی کمائی کو ا س میں ڈال سکتی ہے اور اسےاپنی ذات کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ جہاں تک فطری فرائض کا تعلق ہے، بعض باتوں میں مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے اور بعض میں عورتوں کو، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتیں اپنے آپ کو اپاہج بنا کر مردوں کی کمائی کو دیکھتی رہیں اور خود کچھ نہ کریں۔ انھیں چاہیے کہ اللہ سے زیادہ سے زیادہ اکتساب کی توفیق طلب کرتی رہیں۔
حق کسب میں شرط یہ ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو اُن کی عزت، حرمت اور شان کے منافی

ہو، اور اس کی حقیقی ذمہ داری (بطور ماں ) اس سے متاثرنہ ہو۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ ﷜ کی جب حضور اکرمؐ سے شادی ہوئی تو آپ﷜ اس وقت عرب کی مشہور کاروباری اور نیک خاتون تھیں۔ ایک مضبوط اور مستحکم ماں ایک مضبوط خاندان کی دلیل ہوتی ہے۔ اس لیے اپنی بیٹیوں کو مضبوط کریں اور انھیں شعور دیں ۔
8۔ عورت کا ایک اور اہم حق عزت و تکریم کا حق ہے۔ اسلام نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن، اور بیوی ہر حال میں عزت و تکریم کا بنیادی حق دیا ہے۔ اسلامی نظام میں عورت کی تذلیل کا کوئی تصوّر نہیں ہے ۔ وہ ہر جگہ عزت و احترام اور تقدس سے دیکھی جائے گی۔ حضورﷺ جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو ساتھ اگر ازدواج ہوتیں تو پہلے انھیں سواریوں پر سوار کرتے۔ آپؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ﷜ آپؐ کے پاس آتیں تو آپ احتراماً کھڑے ہو جاتے۔
9۔ عورت کا ایک اہم حق یہ بھی ہے کہ نکاح کے وقت اُس سے اجازت لی جائےنہ کہ زبردستی اس کا نکاح کسی بھی نا پسند شخص سے کر دیا جائے۔ اس لیے شادی سے پہلے لڑکی کی رائے کو ترجیح دینی چاہیے کیونکہ نکاح کرنے یا نہ کرنے کاحتمی اختیار لڑکی کو ہی حاصل ہے۔قرآنِ کریم میں نکاح کی نسبت صرف لڑکے اور لڑکی کی طرف کی گئی ہے۔ ہر عاقل بالغ لڑکے اور لڑکی کو جس طرح اپنے ما ل میں تصرف کا حق ہے اسی طرح اپنی ذات کے فیصلوں کا بھی ہے۔
10۔ اسلام نے عورت کو وراثت کا حق بھی دیاہے۔ قرآنِ کریم میں ہے کہ ایک لڑکے کا حصّہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ قرآن کریم کی رو سے ایک ایسا معاشرہ قائم ہوتا ہے جس میں اکتسابِ رزق کی ذمہ داری بنیادی طور پر مرد کے ذمہ ہوتی ہے کیونکہ ان فرائض و واجبات کی ادائیگی سے جو بنیادی طور پر عورت کے ذمے ہوتے ہیں،عورت کو بالعموم اتنی فرصت نہیں مل سکتی کہ وہ اکتسابِ رزق کا بوجھ اُٹھا سکے۔ عورت کے ذمہ نہ اپنے اخراجات کی کفالت ہوتی ہے اور نہ ہی خاندان کے رزق کی کفالت ۔ اس کے برعکس لڑکے نے اپنے لیے بھی اکتسابِ رزق کرنا ہے اور اپنے بیوی بچوں کے لیے بھی ۔اسی لیے اسلام میں عورت کا حصّہ مرد سے نصف رکھا گیا ہے۔
نہ کوئی لڑکا اپنے اختیار و ارادہ سے لڑکا پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی لڑکی اپنے انتخاب سے لڑکی۔ لہٰذا لڑکی (عورت) کو کسی اعتبار سے بھی لڑکے (مرد) سے پست سمجھنا پیدائشی تفریق کے اُسی باطل عقیدہ کی طرف لوٹ جانے کے مترادف ہے، جسے مٹانے کے لیے قرآن آیا تھا۔ مردوں کو عورتوں سے افضل سمجھنا قرآن کے اصل الاصول کے خلاف اور منشاء خداوندی کے منافی ہے۔ قرآن کی رُو سے افضلیت،

حُسنِ سیرت و کردار اور اعمال کی رُو سے حاصل ہوتی ہے، نہ کے پیدائش کی رُو سے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حقوق وفرائض کو پہچاننے اور اچھے معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button