کالم

مسلم اُمہ کی لفظی گولہ باری

تحریر : علی بیگ

1948 میں یو این او نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا فلسطین ریاست اور یہودیوں کی ریاست_ امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے یو این او کے اس فیصلے کو خوش آیندہ قرار دیتے ہوئے تسلیم کر لیا تاہم تمام عرب ممالک نے اس فیصلے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہودی ریاست کا فلسطین میں وجود ایک ناسور ہے قرارداد کے مطابق فلسطین کا 48 فیصد علاقہ فلسطینیوں اور 42 فیصد علاقہ یہودیوں کو دیا گیا القدس کے 8 فیصد علاقے پر عالمی حکومت کا عندیہ دیا گیا ہے_ اسرائیل نے وجود میں آتے ہی دنیا بھر کے تمام یہودیوں کو اسرائیل میں آنے اور وہاں آباد ہونے کی دعوت دی اور قرار دیا کہ آکر آباد ہونے والے تمام یہودیوں کو اسرائیل کی سٹیزن شپ دی جائے گی_ یورپ اور دنیا کے تمام ممالک سے یہودی دھڑا دھڑ اسرائیل آکر آباد ہونے لگے_ اسرائیلی حکمرانوں نے عرب ممالک کے حکمرانوں کی نیت اور متوقع کارروائیوں کو بخوبی بھانپ لیا تھا چنانچہ اسرائیل نے اپنے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے اقدامات شروع کر دیئے اور معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری شروع کردی_ ملک بھر میں تمام بالغ مردوں اور عورتوں کے لئے فوجی تربیت لازمی قرار دے دی_ تھوڑے ہی عرصہ میں اسرائیل نے ایک مضبوط بری اور ہوائی فوج تیار کر لی تھی جبکہ بحری فوج بھی تیار ہو چکی تھی_ عربوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ناسور کے خاتمے کے لئے یا تو اُسے شعاوں/ سرجری کے ذریعے ختم کرنا ہوتا ہے یا موثر علاج کے ذریعے اُس سے نجات پائی جاتی ہے_ اسرائیل تو جدید ترین رائفلیں، توپیں، ٹینک اور لڑاکا طیارے حاصل کر رہا تھا جبکہ دوسری طرف فلسطین کے پاس نہ بری نہ ہوائی اور نہ بحری فوج تھی بلکہ فلسطینی صرف غلیلیں اور پتھر اکٹھے کرنے پر اکتفا کرتے رہے_ اسرائیل نے میزائلوں اور راکٹوں سے نمٹنے والا جدید جنگی دفاعی نظام بھی حاصل کر لیا تھا_ جو حملہ کرنے والے اِکادُکا میزائلوں اور راکٹوں کو اپنے ہرف پر پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں تباہ کر دیتا ہے_ نتیجہ یہ ہوا کہ 1947 کے بعد کئی بار عرب ملکوں نے اسرائیل پر اجتماعی حملے بھی کئے مگر یہ حملے ناکام رہے اور اسرائیل ان حملوں سے مزید مضبوط ہو گیا اور اُس کی عربوں پر دھاک بیٹھ گئی_ 1967 میں جب مصر، عراق، شام اور اُردن نے مختلف محاذوں سے اسرائیل پر حملہ کیا تو نہ صرف یہ حملے ناکام ہوگئے بلکہ اسرائیل نے مصر صحرائے سینا، شام کی گولان پہاڑیوں اور حماس پر بھی قبضہ کر لیا_ اپنے دفاع سے غافل رہنے والوں کی شکست اور ناکامی کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے_ بر صغیر پر جب برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے چند ہزار ملازمین اور سپاہیوں نے قبضہ کیا تو وہاں عوام کی تعداد کروڑوں میں تھی مگر اپنے دفاع سے غفلت برتنے اور جدید اسلحہ نہ ہونے کی وجہ سے چند ہزار انگریزوں نے پورے بر صغیر کو غلام بنا لیا تھا_ اکیسویں صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے جو ملک اور قومیں وقت کی مناسبت سے فیصلے نہیں کرتیں اور تعلیم میں پیچھے رہ جاتی ہیں وہ کبھی تعلیم یافتہ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے علم سے مالا مال قوموں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں_ ذرا ماضی پر نظر دوڑائیں جب بر صغیر میں مغل بادشاہ شاہجہاں اگرہ میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا تو برطانیہ کی حکومت اُس وقت آکسفورڈ یونیورسٹی تعمیر کر رہی تھی_ آج ہمارے تمام اسلامی ممالک میں کون سی اور کتنی یونیورسٹیاں ہیں جو عالمی رینکنگ میں ہاورڈ یونیورسٹی یا آکسفورڈ یونیورسٹی کا مقابلہ کرسکیں_ اسلامی ممالک کی یونیورسٹیوں میں ریسرچ کا کون سا ایسا مثالی کام ہوا ہے جس پر اسلامی ممالک اور مسلمان فخر کر سکیں_ ہمارے اپنے ملک پاکستان میں کتنی یونیورسٹیاں اور سائنسی ادارے قائم ہوئے ہیں کہ ہم وہاں ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پائے کے سائنس دان تیار کر سکیں_ ہمارے ہاں تو یونیورسٹیوں کی ساکھ کا یہ حال ہے کہ حال ہی میں جب قومی اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی تھی تو آخری ایک دو ہفتوں میں عوامی نمائندوں نے بھاری بھر کم رشوت لے کر یونیورسٹیوں کے چارٹر عطا کئے ایسی یونیورسٹیاں سائینسدان یا دانشور تو نہیں البتہ کرپشن کے نت نئے طریقے دریافت کرنے والے ریسرچر ضرور پیدا کریں گی_ ہمارے عرب ممالک کو اللہ تعالیٰ نے تیل اور گیس کی انمول نعمتوں سے نواز رکھا ہے اور یہ عرب ممالک ہر سال اربوں ڈالر کماتے ہیں عرب ممالک اونچی بلڈنگز سب سے بڑے شاپنگ مال بہترین قسم کے بیچ، سیون سٹار ہوٹل تو بناتے ہیں انٹرٹینمنٹ کے ذیادہ سے ذیادہ وسائل قائم کرتے ہیں مگر تعلیم، صحت اور انڈسٹری کی طرف اُن کی کوئی توجہ نہیں کسی اسلامی ملک میں لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹر، توپیں، آرمرڈ گاڑیاں، ٹینک بنانے کی کوئی فیکٹری نہیں_ فوجی تربیت دینے کا عالمی معیار کا کوئی ادارہ نہیں_ کوئی قابل ذکر یونیورسٹی یا سائینس تحقیقی ادارہ نہیں کیا عرب ممالک کا پلان ہے کہ وہ جنگ کی صورت میں فوج کو غلیلیں یا پتھر دے کر بارڈر پر بھیجیں گے_ تھوڑا عرصہ قبل سعودی عرب کی کوششوں سے پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل ر راحیل شریف کی قیادت میں متعدد اسلامی ملکوں کی ایک مشترکہ فوج تیار کی گئی آج جب مسلمانوں کا قبلہ اول یہودیوں کے قبضے میں ہے اور یہودی دن رات فلسطینیوں کو شہید کر رہے ہیں معلوم نہیں کہ وہ اسلامی لشکر کہاں ہے؟ اور کیا کر رہا ہے؟ آپ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس اسلامی ملک کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں اُس کا اپنا ہی کوئی ہمسایہ اُس کے وجود کے خاتمے کے درپے ہو گا_ یورپی قول ہے کہ ہماری زبانیں فلسطین کے ساتھ اور تلواریں اسرائیل کے ساتھ ہیں_ انہوں نے یہ صرف کہا نہیں بلکہ کرکے بھی دکھایا_ امریکہ اور برطانیہ کی ڈھٹائی دیکھیں کہ وہ اسرائیل کی جارخانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کی مزمت کرنے کی بجائے دنیا بھر کے ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ سب مل کر حماس اور فلسطین کی مزمت کریں_ یورپی ممالک کے عوام تو سڑکوں پر اسرائیل کی مزمت کر رہے ہیں جبکہ یورپی حکومتیں دن رات اسرائیل کی حکومت کی حمایت میں بیان داغ رہی ہیں_ اس وقت کتنے اسلامی ممالک ہیں جو کھُل کر حماس اور فلسطین کی فوج کی مالی مدد کر رہے ہیں او آئی سی نے بھی سوائے جمع حرچ کے کچھ نہیں کیا_ اسلامی ممالک اور او آئی سی صرف اسرائیل کی مزمت کے بیان جاری کر رہے ہیں کیا مزمتی بیانوں اور احتجاجی جلسے جلوسوں سے اسرائیل کو کوئی اثر ہونے والا ہے ہرگز نہیں_ اسرائیل نے تو آج تک یو این او کو کوئی اہمیت نہیں دی پھر اِن مزمتی کی کیا اہمیت ہے_ یہ تو عیاں ہے کہ اسلامی ممالک اسرائیل حماس جنگ کے بعد اسے قصہ پارینہ سمجھ کر بھول جائیں گے وہ نہ تعلیم نہ صحت، نہ انڈسٹری اور نہ ہی ملکی دفاع یا دفاعی پروڈکشن پر توجہ دیں گے ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کی بنیاد پر یونیورسٹیوں کا چارٹر لینے والے اپنی یونیورسٹیوں میں سائنسی، آئی ٹی اور انجینئرنگ کے کورسز یا ریسرچ کی بجائے ایسے کورسز متعارف کرائیں کہ ہمارے ہاں نوجوان طلبا کو ناک سے ایک منٹ میں 20 بادام توڑنے اور مُنہ سے آگ کا ایک گز لمبا شعلہ نکالنے کا فن سکھایا جاتا ہے_ گزشتہ سال ہمارے دو طلبا نے ناک بادام توڑ کر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کرایا_ یہ یونیورسٹیاں مستقبل قریب میں بنگالی بابوں کو بھی اپنے ٹیچنگ سٹاف میں رکھ لیں جو دعویٰ کریں کہ گھر بیٹھا محبوب آپ کو ملنے کے لئے ترپ جائے ہم جنون اور بھوتوں کی مدد سے دشمن کے لشکر کو شکست دے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ پہلے ہمارا کورس کریں پھر ہمارے کمالات دیکھیں سب کو بخوبی یاد ہوگا کہ 1947 میں جب یو این او میں پاکستان کی رکنیت دی جا رہی تھی تو صرف افغانستان نے پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی_ چند سال قبل عراق اور ایران کی جنگ میں ہزاروں فوجی شہید ہو گئے اور کروڑوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا_ اسی طرح عراق نے کویت پر حملہ کر کے کویت پر قبضہ کر لیا اس جنگ میں بھی بھاری جانی و مالی نقصان ہوا_ یمن میں سعودی فوجوں اور حوثی باغیوں کی لڑائی بھی سب کے سامنے ہے_ ایران اور سعودی عرب کے مابین دیرینہ تنازع چلا آرہا تھا خدا خدا کرکے چین نے دونوں ملکوں میں صلح کرادی ہے_ اسلامی ممالک نے اپنا کوئی موثر دفاعی بلاک بنانے کی بجائے ہمیشہ امریکی یا روسی بلاک میں رہنے پر اکتفا کیا ہے_ بڑی طاقتیں ہمیشہ اسلامی ممالک کو مفاد کے لئے استعمال کرتی ہیں حالیہ اسرائیل اور حماس کی جنگ کا جائزہ لیں تو امریکہ اور یورپ کی یکطرفہ زیادتیاں کھل کر سامنے آتی ہیں_ جنگ شروع ہوئی تو امریکہ، برطانیہ، نیٹو اور کئی یورپی ممالک نے کھل کر کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہیں_ ویسے اُن کا اصل موقف ہم جنوں کے ذریعے دشمن کے طیارے خراب کر دیں گے_ دشمن توپوں کے گولے آپ کی طرف پھینکے گا مگر یہ گولے اُس کے اپنے ملک میں گریں گے_ ایسے لگتا ہے کہ اسلامی ممالک ان یونیورسٹیوں کے کورس یافتہ گریجویٹس کے انتظار میں ہیں_ اسلامی ممالک کے مسائل تو ایسے گریجویٹس ہی حل کرسکتے ورنہ تو کوئی حل نظر نہیں آتا_ ان یونیورسٹیوں کے طلبا یہ ریسرچ کرکے بھی محکمہ فلڈ کے سٹاف کو بتا سکتے ہیں کہ جب زیادہ بارش ہوگی تو زیادہ پانی آئے گا اور جب کم بارش ہوگی تو کم پانی آئے گا_ محکمہ فلڈ والے اس ریسرچ سے فائدہ اٹھا کا فلڈ سے نمٹنے کے لئے موثر اقدامات کرسکیں گے_ اس ریسرچ کے لئے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی خدمات بھی لی جا سکتی ہیں وہ اس پر سیر حاصل لیکچر دے سکتے ہیں_

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button