کالم

چانسلر، یونیورسٹیاں اور فضائی آلودگی

تحریر انور خان لودھی

تعلیمی ادارے بند، بازار بند، ٹریفک بند، یہ انتہائی اقدامات ریاست کسی ہنگامی صورت حال میں اٹھاتی ہے اور حالیہ دنوں میں یہ سنگین معاملہ ہے سموگ کا جس نے ہر ذی روح کو پشیماں کیا ہوا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں اس کا کبھی ایک اور کبھی ایک سے زیادہ شہر موجود ہوتے ہیں۔ ستمبر کا مہینہ ختم ہوتے ہی جب فضا میں تھوڑی سی خنکی بڑھتی ہے تو برصغیر کی فضا مکدر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ گرد، دھواں اور آبی بخارات مل کر فضا کا وہ حشر کرتے ہیں جسے ماہرین ماحولیات سموگ کہتے ہیں اور جو حیات کی بقا کیلئے خطرہ بن جاتی یے۔ پاکستان میں لاہور، کراچی، گوجرانوالہ، اور قریبی علاقے جبکہ بھارت میں نئی دہلی اور پاکستان کی سرحد سے ملحقہ شہر سموگ میں لپٹے نظر آتے ہیں۔ فضائی آلودگی کی ایسی بلند ترین شرح میں زندگی بسر کر ریے انسان کی اوسط عمر دس برس کم ہو جاتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے، جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔ سموگ انسان کیلئے کتنی نقصان دہ ہے اس کا ادراک ابھی ادھورا ہے۔ یہ ہمیں ہماری سوچ سے بھی زیادہ ڈس رہی ہے۔ سموگ ٹھہری ہوئی ہوا کی ایک تہہ ہے جو زمین کی سطح کے قریب اس وقت بنتی ہے جب فضائی آلودگی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ زیادہ ٹریفک والے یا زیادہ اخراج والی صنعتی علاقوں میں ہوتی ہے۔ ہالی وڈ فلموں کا گھر لاس اینجلس ہو یا لندن سبھی اس کی لپیٹ میں رہے لیکن ترقی یافتہ ممالک اپنے وسائل، عمدہ حکمت عملی اور ذمہ داری کے زور پر سموگ کا کوئی نہ کوئی توڑ کر لیتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس موقع پر بارش کی دعا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اکتوبر سے دسمبر کے تین ماہ میں سموگ پر قابو پانے کے کئی احکامات دیئے جاتے ہیں، جونہی سموگ کا سیزن ختم ہو تمام احکامات اور منصوبے فراموش ہو جاتے ہیں، ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ لاہور میں انسداد سموگ کے پائیدار اور طویل المیعاد حل درکار ہیں۔ ڈنگ ٹپاؤ منصوبوں سے کام چلنے والا نہیں، ہر شعبے کو سموگ کے تدارک کیلئے اقدامات میں حصہ ڈالنا ہوگا۔
سموگ کی سنگینی کا احساس ویسے تو سب کو ہے اور اس کیلئے اقدامات تقاضائے وقت ہیں۔ ایسے میں گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان جو صوبے میں یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں کی فکر نمایاں ہے۔ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے جامعات کا ایک کنسورشیم بنادیا۔ اس کنسورشیم میں وائس چانسلرز، ماحولیات کے پروفیسرز اور دیگر سٹیک ہولڈرز موجود ہیں۔ چند روز قبل گورنر ہاؤس لاہور میں اس کنسورشیم کا اجلاس ہوا تو گورنر پنجاب فضائی آلودگی کے بحران پر بڑے concerned نظر آئے۔ اجلاس میں سموگ کے مسلے کے حل کے لیے تجاویز اور اقدامات پر خصوصی بات چیت کی گئی۔ چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر شاہد منیر کے علاوہ مختلف سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز اور ماہرین اجلاس میں اس اہم مسئلے پر غور و خوض کیلئے پہنچے تھے۔ اجلاس میں وائس چانسلر لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز پوری تیاری کے ساتھ موجود تھیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نوید اختر وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، پروفیسر ڈاکٹر شازیہ انجم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، پروفیسر ڈاکٹر واجد نسیم جتوئی ڈائریکٹر (SSFS) پروفیسر ڈاکٹر نسیم احمد وائس چانسلر یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور،
پروفیسر ڈاکٹر احسن وحید راٹھور وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس)، پروفیسر ڈاکٹر عارفہ طاہر (چیئرپرسن، شعبہ انوائرمنٹل سائنسز) ایل سی ڈبلیو یو؛ پروفیسر ڈاکٹر سید حبیب بخاری وائس چانسلر کوہسار یونیورسٹی، مری، پروفیسر ڈاکٹر ایم سجاد خان وائس چانسلر چولستان یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز، بہاولپور، ڈاکٹر عزیر خان یونیورسٹی آف لاہور اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے ڈاکٹر علی حسین موجود تھے۔ کنسورشیم کے کنوینئر سابق وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب اور واجد نسیم جتوئی نے گورنر پنجاب کو کنسورشیم میں پیش رفت پر تفصیلی بریفنگ دی۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ ماحولیات کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے ہماری جامعات کو مفید اور قابلِ عمل تحقیق کی طرف تیزی سے اقدامات اٹھانے کی از حد ضرورت ہے، سموگ ماحولیات اور صحت کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے، غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ جامعات ماحولیات پر کی گئی تحقیق اور ماہرینِ کے تجربات کی روشنی میں سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے مسلہ کے حل میں کردار ادا کریں۔ گورنر پنجاب زیرک انسان ہیں۔ تعلیم کے موضوع پر ان کی گرفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وفاق میں تعلیم کا قلم دان سنبھالے رکھا اس لئے تعلیم کے شعبے کی ہر گوٹھ کے سیلانی ہیں، انجینئر ہیں اور وہ بھی امریکہ سے لہذا معاملات کی سائنسی بنیادوں پر اور سرعت سے انجام دینے کے داعی ہیں۔ گورنر پنجاب نے یہ بھی کہا کہ جامعات کی اس موضوع پر ریسرچ کے بعد اگر انڈسٹری کو شریک عمل کیا جائے تو غیر معمولی استفادے کی توقع ہے۔ ایک تجویز چانسلر صاحب نے یہ ہیش کی کہ آج کل سوشل میڈیا کی برتری مسلمہ ہے اور نوجوان نسل سوشل میڈیا ہر بڑی فعال اور ایک دوسرے سے well connected ہے تو ضروری ہے کہ جامعات کے طلبا سوشل میڈیا پر لوگوں کی آگہی کے لیے پیغامات بنائیں۔ چانسلر کی یہ بھی خواہش تھی کہ
یونیورسٹیاں اپنے وسائل سے سموگ جیسے مسلے کے حل اور ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھائیں اور
شارٹ ٹرم سلوشنز پر فوری کام شروع کیا جائے۔ گورنر پنجاب نے ارادہ ظاہر کیا کہ مختلف اسٹیک ہولڈرز بشمول سرکاری محکموں کو سموگ اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے حتمی سفارشات تین دن کے اندر بھیجی جائیں۔
چانسلر نے پروفیسر ڈاکٹر واجد نسیم جتوئی، ڈائریکٹر، انٹرنیشنل سینٹر فار کلائمیٹ چینج، فوڈ سیکیورٹی اینڈ سسٹین ایبلٹی (ICCFS) اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور (IUB) کو کمیٹی/ موسمیاتی تبدیلی، ماحولیات پر کنسورشیم کے لیے فوکل پرسن نامزد کیا۔ اجلاس میں چئیرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمشن پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر شاہد منیر کول ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی کے خالق ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی برطانیہ سے اسی موضوع پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے ۔ گورنر پنجاب نے سائنس دان اور انجینئر کی حیثیت سے بھی انہیں ہدایات جاری کیں کہ وہ کنسورشیم میں پیش رفت کے حوالے سے حکومت کی رہنمائی کریں۔ ڈاکٹر شاہد منیر کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کا بنیادی سبب دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ ضرر رساں گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہے۔ ان گیسز کے اخراج میں کمی کے لیے ہم متعدد اقدام کر کے ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی ایک بڑی وجہ ٹرانسپورٹ بالخصوص سڑکوں پر چلنے والا ٹریفک ہے۔ ان نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے ٹرانسپورٹ کے ذرائع کو "ڈی کاربنائز” کریں، یعنی ان کے سبب پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں کمی لائیں۔ ضرر رساں گیسوں کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ توانائی کی پیداوار کے لیے جلایا جانے والا حیاتیاتی ایندھن یا فوسل فیول ہیں۔ ان کے بجائے قابل تجدید ذرائع مثلاﹰ ہوا اور سورج کے ذریعے بجلی پیدا کر کے ہم ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بننے والی ایک بڑی وجہ کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہم اپنے گھروں میں سولر پینلز نصب کر سکتے اور جہاں ممکن ہو گیس سے چلنے والے ہیٹر کی جگہ بجلی سے چلنے والے ہیٹر استعمال کر سکتے ہیں۔ اجلاس میں لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز بڑی تیاری سے پہنچی تھیں۔ وہ ماہر نباتیات ہیں اور ہاکستان میں ٹشوکلچر کو متعارف کرنے والی اولین شخصیات میں سے ہیں۔ انہوں نے اجلاس کو بتایا کہ سموگ میں کس فیکٹر کا کتنا حصہ ہے اور اس کا حل بھی بتایا۔ ڈاکٹر ناز کا کہنا تھا کہ سموگ کی سبے بڑی یعنی 43 وجہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں ہیں اور باقی محرکات کا کہنا تھا کہ سموگ کی سبے بڑی یعنی 43 وجہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں ہیں اور باقی محرکات یعنی صنعتی اخراج، فصلوں کو جلایا جانا اور گرد وغیرہ کا حصہ مختلف شرح سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حل موجود ہیں مسئلہ صرف سختی سے عملدرآمد کا ہے۔ سڑک پر آنے والی ہر گاڑی کا دھویں سے پاک ہونا لازمی قرار دیا جائے اور فٹنس سرٹیفکیٹ جاری ہو۔ انڈسٹری کیلئے جو معیارات مقرر ہیں ان پر کوئی کمپرومائز نہ کیا جائے۔ فصلیں جلانے پر پابندی کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے،اینٹوں کے بھٹے زگ زیگ ٹیکنالوجی پہ آ جائیں تو ہم چند سالوں میں سموگ سے چھٹکارا پا لیں گے۔ گورنر پنجاب نے ڈاکٹر ناز کی تحقیق کو سراہا اور کنسورشیم کو اس کی جامع سفارشات مرتب کرنے کی ہدائت کی۔ دس بارہ سال قبل تک نہ سموگ تھی نہ کسی نے اس لفظ کو سنا پڑھا تھا۔ وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نے اگرچہ سموگ کے تناظر میں کچھ فوری اقدامات کئے ہیں تاہم سموگ کا مسئلہ بڑا اور انسانی اقدامات چھوٹے ثابت یو رہے ہیں۔ چانسلر کی دلچسپی سے یونیورسٹیوں نے ریسرچ کا رخ انسداد سموگ کی طرف موڑ لیا تو یقیناً ہم خود کو اور آنے والی نسل کو سموگ سے پاک فضا تحفے میں دے سکیں گے۔ ناممکن نہیں کہ دس بارہ سال بعد سموگ کا لفظ صرف تاریخ کی کتابوں میں رہ جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button