کالم

سقوط ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کا قیام

تحریر: ارفع رشید عاربی ( میڈیامینیجرشاہ رُح ٹیکنالوجیز)

سقوط ڈھاکہ پاکستان کے ساتھ بڑا ہی سنگین مذاق تھا۔ یہ سانحہ ہماری قومی اور اسلامی تاریخ کا بھی شرمناک باب ہے جب بھارتی جنرل اروڑہ نے مشرقی پاکستان کے محاذ پر ہماری مسلح افواج کے کمان دار لیفٹنٹ جنرل اے کے نیازی کو سرنڈر کروا کر مشرقی پاکستان کوہم سے جدا کر دیا۔ سقوط غرناطہ اور بغداد کی طرح سقوط ڈھاکہ بھی اپنی غلطیوں ، لا پرواہیوں اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں مشرقی پاکستان کے عوام اور قائدین نے بھی مغربی پاکستان کی عوام اور قائدین کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انھیں کی کاوشوں کی بدولت مشرقی و مغربی پاکستان پر مشتمل ایک الگ اسلامی ریاست کی تشکیل ممکن ہوئی ۔ وہاں کے عوام بھی پاکستان کے وجود میں آنے پر سر بسجو د ہوئے لیکن افسوس کئی سال تک نہ تو یہاں قائد اعظم کی خواہش کے مطابق کوئی اسلامی جمہوری آئین تشکیل پا سکا اور نہ ہی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کروائے جا سکے ۔ البتہ عوامی خواہشات کے برعکس ایک آمر ملک پر مسلط ہو کر سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ جس کی بدولت مشرقی پاکستانیوں کے دلوں میں نفرت کے جذبات نے سراٹھانا شروع کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح انتخابات میں کھڑی ہوئیں ( جن سے مشرقی پاکستانیوں کی امیدیں وابستہ تھیں ) مگر انھیں دھاندلی کے ذریعے شکست سے دو چار کیا گیا۔ تو گو یا سقوط ڈھاکہ کے پیچھے ایک یا دو وجوہ نہیں تھیں بلکہ بے شمار وجوہات تھیں جو ابتدا میں تو معمولی نوعیت کی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایسی موذی بیماری کی شکل اختیار کر گئیں جس سے چھٹکارہ ناممکن ہو گیا مشرقی پاکستان بھی ایک ایسا ہی باز و تھا جسے اپنوں اور غیروں نے زخم دیے اور پھر ان زخموں پر اتنا نمک چھڑکا گیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جسم سے علیحدہ ہو گیا۔
آخر اس تاریخی سانحے کی وجوہات کیا تھیں؟ کن افراد نے ان وجوہات کو آگ کی شکل دے کر پاکستان توڑ ڈالا ؟ دلوں میں اتنی نفرت بھر دی کہ بھائی اپنے ہی بھائی کے خون کا پیاسا ہو گیا۔ اور کئی لاکھ انسان انسانی درندگی کا شکار ہو گئے ۔ ۹۳ ہزار فوجی و سویلین افراد دشمن کی قید میں چلے گئے ۔ قیام پاکستان سے ہی دونوں بازوؤں کے درمیان بارہ سو میل کا جغرافیائی فاصلہ تھا جس کی بدولت دونوں علاقوں کی عوام کو ہم آہنگ ہونے کا موقع نہ مل سکا جبکہ درمیان میں تمام تر علاقہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کا تھا جسے شروع دن سے ہی پاکستان کا قیام منظور نہیں تھا اور وہ برصغیر کی تقسیم کو گاؤ ماتا کی تقسیم سے تعبیر کرتا تھا تو پھر اپنے بھگوان کو کیسے تقسیم ہونے دیتا۔ اسی لیے روز اوّل سے اس نے پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بننا شروع کر دیا تھا۔ دوسری طرف مغربی پاکستان کے حکمران اپنے اقتدار کی ہوس پوری کرنے کے لیے مشرقی پاکستان کو مسلسل نظر انداز کرتے رہے۔ انھیں آئین میں مناسب نمائندگی دینے سے انکار کر دیا گیا اور افسران افواج پاکستان میں بھی مغربی حصے کی نمائندگی زیادہ تھی ۔ قیام ِپاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی تقریباً چار کروڑ تھی جن میں سے پچاس ہزار ہندو تھے جو اہم ترین وزارتوں مثلاً تعلیمی ، مالی اور دوسری وزارتوں پر مامور تھے ۔ لہذا ان ہندو افسران نے بھی مغربی پاکستان کی کوتاہیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تعلیمی نظام کی بنیاد پاکستان مخالف رکھی اور اسلام کی بجائے بنگالی کلچر کو موضوع تعلیم بنایا گیا جو کلکتہ سے متاثر تھا۔ یہ دشمن کا انتہائی کاری وار تھا جو کہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھا۔ کیونکہ جب ذرخیز ذہنوں کی آبیاری ہی پاکستان مخالف زہر یلے لٹریچر کے ذریعے ہو تو پکی ہوئی فصل پر پھل بھی زہر یلے ہی لگتے ہیں ۔ اسی وجہ سے بہت سے بنگالی طلباء و طالبات بھی پاکستان مخالف تنظیموں میں حصہ ڈالنے لگے۔یہاں تک کہ تمام خونی رشتوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ جب حضرت قائد اعظمؒ نے اردو کو پاکستان کی قومی و سرکاری زبان قرار دیا تو بنگال میں اس کو ایک بڑے مسئلے کے طور پر پیش کیا گیا ۔ یہاں تک کہ بنگالی کے حق میں نعرے لگنے لگے ، جلوس نکالے گئے اور گولیاں چلیں ۔ لہذا وہاں موجود ہندوؤں نے ہماری یکجہتی کو ختم کرنے کے لیے اپنے کام کا آغاز ابتدا میں ہی کر دیا تا کہ یہ ملک سنبھلنے نہ پائے۔
یوں جغرافیائی فاصلوں کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف کی عوام کے دلوں میں بھی فاصلے بڑھتے چلے گئے اور ان فاصلوں میں دشمن نے نفرت کا زہر بھر دیا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ بھارت میں جنرل مانک شا نے ۸۰ ہزار ہندوؤں ، بنگالی فوجیوں اور عوامی لیگ کے کارکنوں پر مشتمل لبریشن آرمی بنائی جسے بنگالی میں مکتی باہنی کہا گیا اور اسے تربیت دے کر اسلحے سمیت مشرقی پاکستان میں داخل کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی کئی افراد نے مجیب باہنی ، زیڈ باہنی، کے باہنی اور کئی باہنیاں بنائیں اور پھر قتل و غارت کا بازار گرم کر دیاگیا۔ ہنگامے شروع کروا دیے گئے۔ چھوٹے سے
چھوٹےمسئلے پر بھی جلوس نکالے جا تے ، مغربی پاکستان کو قصور وار ٹھہرایا جاتا اور محب وطن پاکستانیوں کا قتل عام کیا جاتا۔ ان تمام باہنیوں نے اپنے کام کا آغاز ہی محب وطن پاکستانیوں پر حملہ کرنے ، ان کی املاک لوٹنے ونذر آتش کرنے، انھیں قتل کرنے اور ان کی نعشوں کی بے حرمتی کے ساتھ کیا تاکہ وہاں کے عوام بھی سبق سیکھیں اور پاکستان کے خلاف نعرے لگائیں ۔ آفرین ہے ان لوگوں پر کہ ان سب کاروائیوں کے باوجود وہ پاکستان کا دم بھرتے رہے، لیکن ہم نے انھیں بھلا دیا۔ جب اس مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوج کو بھیجا گیا تو تمام پاکستان مخالف پارٹیوں کی توپوں کا رخ پاک فوج کی طرف ہو گیا ۔ ایسی صورتحال میں جب اپنے بھی آستین کے سانپ بنے بیٹھے ہوں کسی سپر پاور کی فوج بھی نہیں لڑسکتی ۔ پاک فوج کے لیے بھی اس صورتحال کو سنبھالنا انتہائی مشکل تھا پھر بھی وہ جوانمردی سے لڑی اور کسی بھی محاذ پر پیچھے نہ ہٹی ۔ اس وقت بھی فوج کی مدد کے لیے چند محب وطن رضا کار تھے جو مکتی باہنی کے ہمدرد بن کر ان کی خفیہ معلومات فوج تک پہنچاتے تھے۔ یہ رضا کار مجاہد فورس البدر اور الشمس کے نام سے منظم تھی ۔ یہ افراد اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر پاکستان بچانا چاہتے تھے ۔ مگر افسوس منزل ان سے کوسوں دور تھی ۔ بالآخر 9 ماہ کی مسلسل لڑائی اور جد و جہد کے بعد ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ ء کی منحوس صبح پاکستانی فوج ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی اور مشرقی
پاکستان کا سقوط ہو گیا۔
؎ کیا اس دن کے لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے
انڈین آرمی ویب سائٹ کے مطابق بھارتی قید میں جانے والے ۹۳ ہزار افراد میں سے پاکستانی فوجیوں کی تعداد ۳۸ ہزار تھی اور باقی پیرا ملٹری فورسز ، سول فورسز اور سویلین افراد تھے۔
پاکستان کے مشرقی حصے کو توڑنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے خوشی سے اعلان کیا تھا کہ” آج میں نے دو قومی نظریے کو بحر ہند میں ڈبو دیا ہے اور بھارت نے مسلمانوں سے ہندوؤں کی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے ۔” اس جنگ میں بھارت کی پشت پناہی امریکہ اور روس نے کی جبکہ پاکستان کی مدد کو دوست ملک چین بھی نہ پہنچ سکا کیونکہ نومبر دسمبر میں برفباری کی بدولت چین کے تمام راستے بند ہوتے ہیں ۔ بہر حال ۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ ء کومسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان کا عہدہ سنبھال لیا اور ۲۲ فروری ۱۹۷۴ءکو پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایک الگ ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء سے فروری ۱۹۷۴ء کے دوران اہم ترین معاہدہ صرف جنگی قیدیوں کی واپسی تھا اس کے علاوہ کوئی پیش رفت نہ ہوسکی ؎ ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہوفنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت ِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خداداد
بے شک سقوط ڈھا کہ اور پھر بنگلہ دیش کے قیام میں بھارتی مداخلت ماننے کی بات ہے لیکن کیا ہم اس جرم سے انکار کر سکتے ہیں کہ ہم نے بھی اپنے مشرقی بھائیوں کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک نہیں کیا ؟ قیام پاکستان کے محّرک افراد کو غدار وطن بننے پر مجبور کیا اور آنکھیں بند کیے تخریبی دشمنوں کا ساتھ دیتے رہے۔ اس سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ چند ہی سالوں میں ہم نے اس عظیم سانحے کو بھلا دیا، تا ہم رحمت ایزدی کہ پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔ سپر پاور امریکہ نے شروع دن سے ہی دوستی کی آڑ میں دشمنی نبھائی۔ ان کی امداد کے بدلے ہمیں کئی گنا بھاری قیمت چکانا پڑی اور پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کے باوجود دہشت گردوں کی بنائی ہوئی بھٹی میں جلتا رہا ۔ سرحدی قبائل جو ہمارے بازوئے شمشیر زن ہیں کو توپوں ، ٹینکوں اور میزائلوں کا نشانہ بنایا گیا ،جبکہ ڈرون حملوں کے باوجود امریکہ انھیں ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا سکا ۔ آج بھی ہمیں اس سانحے سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر بھارت ، امریکہ اور اسرائیل کی تکون دشمنی کے خطرناک عزائم جان کر ان سے نمٹیں اور پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کریں ۔ اس لئے ہمارے سیاستدانوں کوسقوط ڈھاکہ کو نشان عبرت بنا کر آ ئندہ کیلئے جر نیلی آمریت کا راستہ ہموار کرنے کی خاطر طالع آزماؤں کو کبھی اپنا کندھا پیش نہیں کرنا چاہیے بلکہ سیاست میں اپنے باہمی اختلافات کو ”پوائنٹ آف نو ریٹرن” تک نہیں پہنچانا چاہیے۔اگر 1971 کے انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ہٹ دھرمی سے کام نا لیتے اور سیاسی تدبرکے تحت شیخ مجیب الرحمن سے حکومت و مملکت کے معاملات طے کر لیتے تو ہمیں سقوط ڈھاکہ کے المیے کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ قوم قائدین سے مایوس ہونے کے باوجود بھی ان سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے اور دیکھ رہی ہے کہ وہ تاریخ کے آئینے میں سرخرو ہونے کے لیے کیا کرتے ہیں ۔ ؎ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button