کالم

ماحولیات، امارات اور ہوبارہ فاؤنڈیشن

تحریر انور خان لودھی

آب و ہوا کے بحران نے اس دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے اور اس کے اثرات اتنے شدید ہیں کہ ماحولیات کے ماہرین، اقوام متحدہ اور دیگر ادارے اور تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک و فعال ہو چکی ہیں۔ اس سطح پہ سرگرمیاں اگر دو عشرے پہلے شروع ہو جاتیں تو شاید ہمای زمین اس زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی۔ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے سے ہم جن مسائل کا شکار ہو چکے ہیں وہ ان مصائب سے کہیں کم ہیں جن کا سامنا ہمیں مستقبل میں ہو سکتا ہے۔ گلیشیئر پگھل کر سمندروں میں شامل ہوتے رہے تو ہمارے شہر زیر آب آجائیں گے۔ دنیا کی شکل بدل کر بھیانک ہو جائے گی۔ ماحولیات کی بہتری کیلئے متحدہ عرب امارات کا کردار قابل تعریف ہے۔ پاکستان میں متعدد این جی اوز بھی ماحولیات کے مسئلے کی جانب آگاہی دے رہی ہیں اور اس کی بہتری کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھا رہی ہیں۔ ان میں ایک نمایاں نام ہوبارہ فاؤنڈیشن ہاکستان کا ہے۔ سال 2023 میں عالمی سطح پر متعدد کانفرنسز میں ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے نظر آئے۔ سال 2024 ماحولیات میں کیا تبدیلی لے کر آئے گا۔ کیا ہماری کوششیں زمین کو اس کا حسن اور درجہ حرارت واپس دلانے میں بار آور ثابت ہوں گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہمیں مل کر ڈھونڈنا ہے۔ سال 2023 کو انسانی تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا گیا اور اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ عالمی تپش کے خطرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک ہم گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے، شہری اور دیہی علاقوں میں بارشوں کے باعث آنے والے سیلابوں کے سبب جانوروں کے خاتمے اور انسانی زندگی کے متاثر ہونے کی باتیں صرف کتابوں میں پڑھا کرتے تھے یا اس طرح کی منظر کشی ہالی وڈ فلموں میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ تاہم اب یہ صورتحال پاکستان میں عملی طور پر ہر چند سال یا چند ماہ بعد بار بار دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان ارضیاتی طور پر ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی آمدنی، رہائش، خوراک اور سلامتی کو خطرے میں ڈال چکی ہیں۔ اس سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو عالمی اوسط کی نسبت زیادہ اوسط درجہ حرارت کا سامنا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ آفات کے خطرے کی سطح کو ماپنے کے نظام انفارم رسک انڈیکس کی طرف سے 2023ء میں جاری کی گئی رینکنگ کے مطابق پاکستان 191 ممالک میں سے 16ویں نمبر پر ہے۔ علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلی کی تخفیف کے اقدامات اکثر غیر متناسب طور پر سب سے زیادہ پسماندہ افراد کو متاثر کرتے ہیں۔ اسلئے ہمیں ہر ممکن طریقے سے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے متحرک ہونے اور آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے لے کر مقامی حکومتوں تک کی سطح پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہیں ہمیں اسے سکولوں کی سطح پر نصاب کا بھی حصہ بنانا ہو گا تاکہ ہماری نئی نسل موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو سکے۔ امارات ميں عالمی ماحولياتی کانفرنس اس مسئلے کی سنجیدگی کی غماز تھی جس ميں شريک ممالک نے تحفظ ماحول کے ليے نئے اہداف طے کرنے کی کاوش کی۔ ايک سو دس سے زائد ممالک نے آئندہ سات برسوں ميں يعنی سن 2030 تک قابل تجديد توانائی سے متعلق عالمی صلاحيتيں تين گنا تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔ اس سمجھوتے کے بارے ميں باضابطہ طور پر اعلان عالمی ماحولياتی سمٹ COP28 کے ميزبان ملک متحدہ عرب امارات کی جانب سے کيا گيا۔ اس ڈيل کا حصہ بننے والے ممالک جامع کوششوں کے ذريعے رواں دہائی کے اختتام تک قابل تجديد توانائی کے حجم کو گيارہ ہزار گيگا واٹ تک پہنچا ديں گے۔ دنیا میں جو سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) شمار کی جاتی ہیں وہ فطرت کے تحفظ پر کام کررہی ہیں۔ انسان کو فطرت الٰہی پر تخلیق کیا گیا ہے اور فطری حسن انسان کو بھلا لگتا ہے۔ جنگلی حیات اور نباتات فطری حسن کی اساس ہیں مگر فطری جمال کئی پہلوؤں سے خطرہ میں ہے۔ تعمیرات اور ٹیکنالوجی کی بہتات سے ایک طرف قدرت جنگل اور صحرا مختصر ہورہے ہیں تو دوسری جانب بے جا شکار سے جنگلی حیات بھی معدوم ہورہی ہے۔ کالا ہرن چولستان کا معصوم اور خوبصورت جانور ہے جس کے تحفظ اور افزائش پر توجہ نہ دی گئی۔ نتیجتاً کالا ہرن کی نسل ختم ہو نے کے قریب آگئی۔ اس تناظر میں پاکستان میں ایک این جی او ہوبارہ فاؤنڈیشن نے ایک اہم مشن اپنے ذمے لیا۔ یہ این جی او ملک کے مختلف حصوں میں تلور اور ہرن کے تحفظ اور افزائش پر کام کررہی ہے۔ ہوبارہ فاؤنڈیشن نے چنکارا ہرن اور کالے ہرن(Black buck) کی افزائش اور تحفظ کیلئے سینکڑوں مربع کلومیٹر پر مشتمل عالمی معیار کا انکلوژر بہاولپور کے نواح میں قائم کیا ہے جسے کامیابی سے چلایا جارہا یے۔ دوست ملک یو اے ای کے تعاون سے ہوبارہ فاؤنڈیشن نے 2015 میں ایک منفرد منصوبہ شروع کیا اور بہاولپور کے نخلستان کے مشرق میں لال سوہانرا کے علاقے سے پرے گیارہ کلومیٹر طویل اور چار کلومیٹر عریض صحرائی علاقے کو آہنی باڑ لگا کر انکلوژر میں تبدیل کیا۔ اس ریسرچ سنٹر اور افزائش سنٹر میں پانچ سو کے قریب چنکارا ہرن اور کالا ہرن چھوڑ دئیے گئے۔ اس انکلوژر میں جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے شاندار انتظامات کئے گئے۔ آہنی باڑ کے ساتھ ہر دو تین کلومیٹر پر گارڈ پوسٹ قائم کی گئی جہاں 24 گھنٹے مختلف شفٹوں میں پہرے دار موجود رہتے ہیں اور شکاریوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ آہنی باڑ سے چیتا ، بھیڑیا اور دیگر شکاری درندے انکلوژر کے اندر نہیں آپاتے جس کے نتیجے میں ان نایاب ہرنوں کی تعداد تین گنا ہوگئی ہے۔ انکلوژر کو سال 2021 کے دوران وسعت دی گئی ہے اور اب اس کا سائز گیارہ کلومیٹر چوڑا اور پندرہ کلومیٹر لمبا ہوگیا ہے۔ گویا 165 مربع کلومیٹر کا ایسا قدرتی جنگل دستیاب ہوگیا ہے جہاں معدوم ہوتے ہوئے نایاب ہرن نو فطری ماحول میں اپنی پرورش اور افزائش کے مواقع میسر ہیں۔ بارش سے صحرا کے نشیب علاقے پانی سے بھر جاتے ہیں جسے ٹوبہ کہتے ہیں۔ صحرا کے جانور اور انسان اسی ٹوبے سے پانی پیتے ہیں۔ خالق کائنات نے ہر چیز کو ایک توازن میں پیدا کیا ہے، ہر جاندار کا دور حیات مقرر فرمایا۔ حیاتیات میں ایک چیز دوسرے کے کام آتی ہے، گھاس، بیل بوٹے پر کئی جانور، حشرات، چرند پرند ہلتے ہیں۔چھوٹے جانور بڑے جانوروں کی خوراک بنتے ہیں۔ شہر کی زندگی سے ہٹ کر کسی بیابان کی زندگی کی چاشنی اور خوبصورتی کا بخوبی اندازہ تھا۔ فطرت کے دلدادہ انسانوں کو صحرا میں گونا گوں مظاہر سجائی دیتے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے صحرا سے پیار، سرشت سے پیار ہے۔ جنوبی پنجاب کے اکثر علاقے صحرا اور بیابان پر مشتمل ہیں۔ یہاں کے باسی بوجوہ پسماندہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بلاشبہ حکومت اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اپنے انداز سے ان علاقوں میں عوام کی بہتری کے منصوبے بناتی اور ان پر عمل پیرا ہوگی لیکن ان دشوار گزار اور انتہائی پس ماندہ علاقوں میں دوست ملک متحدہ عرب امارات نے عوامی خدمت کی شاندار روایات قائم کی ہیں۔ راقم کو بہاولپور کے علاؤہ راجن پور اور رحیم یار خان کے مطالعاتی دورے کا موقع ملا ہے۔ ایک بات بڑی دل کو لگی کہ ان علاقوں میں صحت، تعلیم اور مواصلات کے منصوبوں میں یو اے ای حکمرانوں نے فراخ دلی سے خرچ کیا ہے۔ یہاں کے باسیوں سے گفتگو ہوتی رہی۔ ان کا کہنا تھا یو اے ای حکام نے ہمیشہ علاقے کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یو اے ای حکام کے علاؤہ یہاں ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان نے بھی فطرت کے تحفظ اور عوامی خدمت کی مثال قائم کی ہے۔ صحرا کی وسعت انسان کو مبہوت کرکے رکھ دیتی ہے۔ صحرا کے ماتھے کا جھومر اس کی فطرت ہے۔ فطرت کے مخمل میں ان گنت ہیرے جواہرات یہاں کے چرند، پرند اور نباتات ہیں۔ صحراؤں کی دلکشی کو قائم رکھنے بلکہ اسے جلا بخشنے کیلئےاس فطرت (Nature) کو نہ صرف بچانا ہے بلکہ اس کی شرح کو بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان پاکستان کے صحراؤں میں دوہرے محاذ پر سرگرم ہے۔ ایک طرف یہ تنظیم جہاں تلور، ہرن، اور دیگر جنگلی حیات کے تحفظ اور افزائش کیلئے کام کررہی ہے وہاں صحرا میں بسنے والے انسانوں کی فلاح وبہبود کیلئے بھی کوشاں ہے اور پینے

کے صاف پانی، طبی سہولتوں، ہنرمند بنانے کے مراکز اور تعلیمی اداروں کا قیام اور نگرانی کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے. صحرا یعنی ڈیزرٹ میں زندگی کو رواں رکھنے اور سہولتوں کے فروغ میں حکومت کو ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان کی بھی بھرپور معاونت حاصل ہے۔ اس این جی او کو اس کے سربراہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ مختار نے عروج بخشا ہے اور یہ این جی او گزشتہ دو دہائیوں سے چولستان میں منعقدہ سب سے بڑے موٹر سپورٹس ایونٹ یعنی چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی کے انعقاد میں محکمہ سیاحت، بہاولپور ڈویژن انتظامیہ اور پاک فوج بہاولپور کور کو سپورٹ کررہی ہے۔ اس کے علاؤہ 16 ہزار مربع کلومیٹر کے صحرائے چولستان میں متعدد قلعے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ ان میں دین گڑھ، میراٹ، خان گڑھ، بھجنوٹ، موج گڑھ اور جام گڑھ کے قلعے شامل ہیں۔ چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی صرف موٹر سپورٹس ہی نہیں بلکہ ایک مکمل ثقافتی میلہ ہے۔ رات کو سیاحوں کیلئے خیموں میں قیام، بون فائر، مقامی فوڈ فیسٹیول، اونٹ کی سواری اور صوفی نائٹ اہم ہیں۔دراوڑ فورٹ کا دلواش سٹیڈیم اس سارے میلے اور ریلی کا محور و مرکز ہے۔ صحرا میں بکھرے ان رنگوں کو دیکھنے کیلئے ذرائع آمد و رفت کا ہونا از حد ضروری ہے۔ امارات حکومت نے اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بہاولپور ڈویژن اور راجن پور ضلعے میں پانچ ہوائی اڈے اور ان کو ملانے والی سڑکیں تعمیر کرکے پاکستان کو یہ سنہری موقع فراہم کردیا کہ وہ دنیا بھر کے سیاحوں کو یہاں کھینچ لائے۔
ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان کی ٹیم چولستان میں جیپ ریلی کو کامیاب بنانے کیلئے ہر جگہ برابر کی شریک نظر آتی ہے۔ فاؤنڈیشن کا لال سوہانرہ پارک میں ہرن کی نایاب نسل کو تحفظ اور بریڈنگ کا مرکز قائم ہے۔ میجر خالد کی نگرانی میں ایک ٹیم مستعد نظر آتی ہے جو ہوبارہ فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے آنے والے مہمانوں کو بہاولپور سے لے کر پہلے لال سوہانرہ پہنچاتی ہے اور رات قیام کے بعد ان کو دو گھنٹے کی مسافت پر دراوڑ فورٹ پہنچاتی ہے۔ میجر خالد اپنے مہمانوں کو چولستان کی جنگلی حیات ہرن ہوبارہ بسٹرڈ، کے تحفظ اور افزائش سے متعلق آگاہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہوبارہ فاؤنڈیشن کس طرح چولستان میں جہازوں کے ذریعے پودوں کے بیج بکھیرتی ہے تاکہ چولستان کے جنگلات فروغ پائیں۔ پودے، درخت اور جری بوٹیاں نشوونما پائیں گی تو وائلڈ لائف کو اپنی افزائش اور تحفظ کیلئے درکار فطری ماحول میسر آئے گا۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Related Articles

Back to top button